گذشتہ سے پیوستہ۔۔۔
ہوٹل واپسی پر سونے کا خیال یوں ملتوی کرنا پڑا کہ اگلے روز بارہ بجے تل ابیب سے امریکہ واپسی کی پرواز تھی۔ عبدالقادر کا کہنا تھا کہ بارہ بجے کی فلائٹ کے لیے ہمارے لیے لازم ہے کہ کم از کم نو بجے تل ابیب ہوائی اڈے پہنچ جائیں۔ یوں شدید تھکان کے باوجود ہوٹل پہنچ کر اپنا اٹیچی کیس کھول کر بیٹھ گئے، سامان باندھا اور اگلے تین گھنٹے خواب ِخرگوش کے مزے لیے۔
صبح فجر کی نماز تو مسجد ِاقصیٰ میں ادا کرنے کا ارادہ تو تھا ہی، مگر ساتھ ہی دل میں خیال آیا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ائیر پورٹ جانے سے پہلے کا تمام وقت الحرم الشریف میں مسجد ِقبلی اور قبتہ الصخرة میں گزارا جائے۔
صبح گہرے دبیز اندھیرے میں ڈوبی تھی، جب ہم عبدالقادر کے ساتھ نماز ِفجر کی ادائیگی کے لیے روانہ ہوگئے۔ یروشلم کی مسجد ِاقصیٰ کی طرف جاتی گلیوں سے میں ان تین چار دنوں میں اتنی مانوس ہو چکی تھی کہ یوں گمان ہوتا تھا کہ جیسے ہمیشہ سے انہیں دیکھتی چلی آئی ہوں۔ ہم روز کے راستے سے باب الاسباط سے مسجد ِاقصیٰ کی طرف بڑھنے لگے۔ آج میرے قدموں میں نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بوجھل پن نمایاں تھا اور دل میں یہ احساس کہیں غالب تھا کہ سر زمین ِقبلہ ِاول میں آج یہ میرا آخری دن تھا۔ میں اپنی سوچوں میں گم تھی کہ عبدالقادر کی آواز نے چونکا دیا، ’آج فجر کے بعد میں آپ کو یہاں مسجد کے باہر ملوں گا اور ایک ایسی جگہ دکھاؤں گا جو آپ کو ہمیشہ مسجد ِقبلی سے روحانی طور پر باندھ کر رکھے گی‘۔ ’مگر مسجد ِاقصیٰ تو میں روز دیکھتی ہوں۔ پھر بھلا آج کیا ایسی خاص بات ہوئی؟‘ ۔۔۔میرے سوال پر عبدالقادر مسکرا دیا اور تلقین کی کہ فجر کی ادائیگی کے بعد سات بجے کے قریب ہم مسجد کے باہر ملیں۔
نماز ِفجر میں روز کی طرح نمازیوں کی معقول تعداد موجود تھی۔ خواتین کی صفیں بھی پُر رونق تھیں۔ یہاں پر ایک فلسطینی خاتون مریم کی یاد آئی جو روزانہ فجر کی نماز کے بعد خواتین سے مخاطب ہوکر عربی میں باتیں کرتی تھی، خدا جانے کیا کہتی تھی۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ مریم کا بآواز ِبلند بولنا مجھے گراں گزرتا تھا اور دو روز پہلے تو میں نے اسے اشاروں میں ٹوک کر بتانے کی کوشش بھی کی کہ نماز کے بعد خواتین کے جھرمٹ سے بولا کم کرو یا پھر آہستہ بولا کرو۔ جماعت سے فارغ ہوئی ہی تھی کہ وہی مریم میرے قریب آکر بیٹھ گئی، مجھے لگا کہ وہ مجھ سے دو روز پہلے والی بات پر خفا ہوگی اور اسی سلسلے میں بات کرنے آئی ہوگی۔ اس کے ہاتھ میں کجھور اور خوبانیوں سے بھری ایک ٹوکری تھی۔ مریم کے اصرار پر ایک کھجور اٹھالی۔ اب مریم نے اپنے پرس میں سے نماز کے اذکار والی ایک چھوٹی سی کتاب نکالی اور عربی اور انگریزی کے الفاظ میں مجھے یہ سمجھایا کہ وہ اپنی پاکستانی بہن کے لیے تحفہ لائی ہے۔ میں شرمندہ ہوگئی، میرے سلوک کا اس نے کیسا اچھا جواب دیا تھا۔
سات بجے حسب ِوعدہ میں مسجد سے باہر نکل آئی جہاں عبدالقادر منتظر کھڑا تھا۔ ’آئیے، آپ کو اصل مسجد ِقبلی دکھاتے ہیں‘۔ ’ہیں، کیا مطلب؟ یہ مسجد ِقبلی نہیں جہاں میں روز فجر ادا کرتی ہوں؟‘ ۔ میں عبدالقادر کی بات پر حیران ہی رہ گئی۔ مسجد ِقبلی سے باہر نکل کر ساتھ ہی کچھ سیڑھیاں نیچے کی طرف جاتی ہیں اور اس تہہ خانے پر ’الاقصیٰ القدیم‘ کی تختی لگی ہوئی ہے۔ یہ عمارت اب خواتین کے ایک کتب خانے کا کام دیتی ہے۔
مگر تاریخ میں اس عمارت کی آب و تاب کہیں زیادہ ہے۔ در حقیقت یہی مسجد ِقبلی ہے اور جس مسجد میں مسلمان اب نماز ادا کرتے ہیں وہ صلاح الدین ایوبی کی فتوحات کے بعد قائم کی گئی۔ میں عبدالقادر کے پیچھے پیچھے ’الاقصیٰ القدیم‘ میں داخل ہو گئی۔ عبدالقادر سیدھا چلتا رہا اور مجھے ایک کمرے میں لے گیا جہاں دیوار کے اندر محرابیں بنی ہوئی تھیں۔ ’مدیحہ، یہ وہ مقام ہے جہاں پر نبی ِکریم صل اللہ و علیہ وسلم نے معراج کی رات انبیائے کرام کی نماز کی امامت کرائی تھی‘۔ میں حیران رہ گئ۔ غور سے محراب کو دیکھتی رہی، پھر نوافل کی ادائیگی کی۔ کمرے میں سرخ قالین بچھے تھے اور سامنے لکڑی کے تختوں پر قرآن ِکریم کے نسخے ترتیب سے رکھے تھے۔
’الاقصیٰ القدیم‘ سے نکل کر میں ’قبتہ الصخرة‘ کی طرف چل پڑی۔ قبتہ الصخرة کی عمارت کے دروازے آٹھ بجے کھولے جاتے ہیں۔ اندر داخل ہوئے تو صفائیاں ہو رہی تھیں اور کہیں ویکیوم تو کہیں جھاڑ پونچھ کی جا رہی تھی۔ میں بئر الارواح کی طرف بڑھ گئی جہاں اس وقت سوائے میرے کوئی بھی نہ تھا۔ نوافل ادا کیے اور بوجھل دل اور قدموں کے ساتھ مسجد ِقبلی اور قبتہ الصخرة پر الوداعی نظر ڈالتے ہوئے ہوٹل واپسی کا قصد کیا۔
تل ابیب کے بن گیرین ائیر پورٹ تک پہنچتے پہنچتے ساڑھے نو بج گئے۔ ہوائی اڈے پہنچ کر احساس ہوا کہ عبدالقادر کو ہوائی اڈے جلدی پہنچنے کی کیا پڑی تھی؟۔۔۔سیکورٹی کے نام پر ہمارا بورڈنگ پاس اور پاسپورٹ رکھ کر ہماری ایک ایک چیز کی تفصیلی چیکنگ کی گئی۔
ان تمام مراحل سے فارغ ہو کر ہوائی جہاز کی نشست سنبھالی تو محسوس ہوا کہ دنیا کے اس قدیم شہر یروشلم سے واپسی تو ہو رہی ہے مگر جیسے زندگی کا ایک حصہ یہیں کہیں چھوڑے جا رہی ہوں۔ جہاز آسمان کی وسعتوں میں ہلکورے لینے لگا اور میں بادلوں میں گم ہوتے یروشلم شہر کے اس منظر کو اس امید اور وعدے کے ساتھ اپنی آنکھوں میں سمونے لگی کہ قدرت مجھے زندگی میں اس جگہ ایک مرتبہ پھر آنے کا موقع دے۔۔۔ تب تک کے لیے اے شہر ِدلپزیر، الوداع !!
ختم شد۔۔۔