جاوید اختر نے پارلیمنٹ کی رکنیت کا حلف اردو میں لیا

اردو کے مشہور شاعر جاوید اختر

مشہور فلم مکالمہ نگار اور نغمہ نگار جاوید اختر جنہیں گزشتہ ماہ صدر جمہوریہ ہند نے پارلیمنٹ کے ایوان بالا کا رکن نامزد کیاتھا ۔ انہوں نے اپنی رکنیت کا حلف اردو زبان میں لیا اور اس طرح انہوں نے اس زبان کا حق ادا کیا جِس میں وہ شاعری کرتے رہے اور مکالمے لکھتے رہے ۔

حالانکہ، ایک قومی زبان ہونے کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں اردو زبان میں بولنے اور حلف لینے کا اختیارارکان کو حاصل ہے ، لیکن اِس کا استعمال کم ہی کیا جاتا ہے ۔

جاوید اختر کو شاعری وراثت میںملی ہے ۔ اُن کے دادا مضطر خیر آبادی مشہور شاعر تھے ۔ان کے والد جاں نثار اختر بھی صاحب طرز شاعر تھے جنہوں نے اردو غزل کو نیا رنگ و آہنگ دیا تھا۔ جاوید اختر کی والدہ صفیہ اختر مشہور شاعر اسرار الحق مجاز کی بہن تھیں اور انتقال کے بعد ان کے خطوط ‘زیر لب’ کے عنوان سے شائع ہوئے تھے ۔ جس کا دیباچہ مشہور ادیب کرشن چندر نے لکھا تھا اور ان خطوط کو نہ صرف دستاویزی قرار دیا تھا بلکہ ان سے صفیہ کے اسلوب کی اپنی شناخت ہو تی ہے ۔اس طرح جاوید اختر کو شاعری نانیہالی اور دادیہالی دونوں جانب سے ملی ہے ۔ ان کی اہلیہ شبانہ اعظمی کے والد کیفی اعظمی بھی معروف شاعر تھے ۔ خود شبانہ بھی پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی نامزد رکن رہ چکی ہیں ۔

جاوید بھی شاعری کرتے ہیں لیکن انہوں نے فلموں میں گانے زیادہ لکھے ہیں ۔ اب تک وہ دو سو سے بھی زائد فلموں میں گانے لکھ چکے ہیں ۔

اِس سے قبل وہ فلموں میں سلیم خاں کے ساتھ مل کر مکالمہ نگاری کیا کرتے تھے اور ان لوگوں نے ناظرین کو زنجیر اور شعلے جیسی فلمیں دیں جو بے حد مقبول ہوئیں ۔ جاوید اختر کے گانے بھی بہت مقبول ہیں ۔ ان کا ایک شعری مجموعہ‘ ترکش ’شائع ہو چکا ہے جس میں ان کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں ۔ انہوں نے اپنے والد کی شاعری کا اثر ضرور قبول کیا ہے لیکن اپنی الگ راہ نکالی ہے ۔

جاوید اختر کی پیدائش 17 جنوری سنہ 1945 کو گوالیار میں ہوئی تھی انہوں نے تعلیم بھوپال کے سیفیہ کالج میں حاصل کی تھی۔ بعد میں والدہ کے بے وقت انتقال کے سبب انہیں بہت ٹھوکریں کھانی پڑیں اور وہ 14برسوں تک بن باس میں رہے ۔ جس کے بارے میں ان کی خالہ حمیدہ سالم اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ہم لوگوں کو بھی پتہ نہیں کہ ان چودہ برسوں میں جادو ( جاوید اختر کے پکارنے کا نام ) کہاں رہا ۔ لیکن 80 کی دہائی کے بعد جب وہ فلموں میں نمودار ہوئے تو پھر آگے ہی بڑھتے چلے گئے اور قدم کبھی پیچھے نہیں ہٹائے ۔

جاوید اختر نے نظمیں کافی تعداد میں کہی ہیں ان کی نظمیں آزاد بھی ہیں اور پابند بھی ۔ لیکن غزلوں کے اشعار میں ایک خاص کیفیت ملتی ہے ۔ خاص طور پر اس درد اور کرب کا اظہار ہے - اس میں کڑواہٹ ، تلخی اور کھردرا پن بھی ہے ۔ایک طرح سے انہوں نے غزلوں میں مختلف لفظیات کا استعمال کیا ہے ۔ ا س میں اس کرب کا اظہا ربھی ہے جو انہوں نے 14 برسوں کے بن باس میں جھیلا تھا ۔


ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی
قدم رکھا کہ منزل راستہ تھی
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے
اک طرف مورچے تھے پلکوں کے
اک طرف آنسوﺅں کے ریلے تھے
تھیں سجی حسرتیں دکانوں پر
زندگی کے عجیب میلے تھے
ذہن و دل آج بھوکوں مرتے ہیں
ان دنوں ہم نے فاقے جھیلے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔
دل میں مہک رہے ہیں کسی آرزو کے پھول
پلکوں پہ کھلنے والے ہیں شاید لہو کے پھول
اب تک ہے کوئی بات مجھے یاد حرف حرف
اب تک میں چن رہا ہوں کسی گفتگو کے پھول
میرے لہو کا رنگ ہے ہر نوک خار پر
صحرامیں ہر طرف ہیں میری جستجو کے پھول
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو مجھ کو زندہ جلا رہے ہیں وہ بے خبر ہیں
کہ میری زنجیر دھیرے دھیرے پگھل رہی ہے
میں قتل تو ہو گیا تمہاری گلی میں لیکن
مرے لہو سے تمہاری دیوار گل رہی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خواب کے گاﺅں میں پلے ہیں ہم
پانی چھلنی میں لے چلے ہیں ہم
چھاچھ پھونکیں کہ اپنے بچپن میں
دودھ سے کس طرح جلے ہیں ہم
خود ہیں اپنے سفر کی دشواری
اپنے پیروں کے آبلے ہیں ہم
تو تو مت کہ ہمیں برا دنیا
تونے ڈھالا ہے اور ڈھلے ہیں ہم
کیوں ہیں کب تک ہیں کس کی خاطر ہیں
بڑے سنجیدہ مسئلے ہیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ تسلی ہے کہ ہیں ناساز سب
میں اکیلا ہی نہیں برباد سب
سب کی خاطر ہیں یہاں سب اجنبی
اور کہتے ہیں کہ گھر آباد سب
شہر کے حاکم کا یہ فرمان ہے
قید میں کہلائیں گے آزاد سب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو غلط نہ سمجھے تو میں کہوں تیرا شکریہ کہ دیا سکوں
جو بڑھے تو بڑھ کر بنے جنوں مجھے وہ خلش بھی ضرور دے


اور، یہی خلش جاوید اختر کو آگے اور آگے اور آگے لے جاتی رہی ہے ۔ اُن کا سفر اب بھی جاری ہے ۔