'کچھ نہ کرکے' کمانے والا جاپانی شہری

Shoji Morimoto

آپ نے کبھی گاڑی کرائے پر لی ہو گی، شامیانے اور تمبو قناطیں کرایے پر لگوائی ہوں گی، پلمبر اور کارپپنٹر کی خدمات کے لیے بھی کسی کو پیسے دیے ہوں گے۔ کیا کبھی ایسے شخص کی خدمات رقم کے عوض حاصل کی ہیں جو کچھ نہ کرتا ہو؟

"کچھ نہ کرنے کے لیے کرایے پر دستیاب ہوں" سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر اگر آپ جاپانی شہری شوجی موریموتو کے اکاؤنٹ پر جائیں تو یہ پیغام آپ کو بطور اشتہار سب سے پہلے نظر آئے گا۔

38 سالہ شوجی موریموتو کے لیے "کچھ نہ کرنا" ہی ذریعہ معاش ہے۔ اس کام کے یا کچھ نہ کرنے کی وہ 80 ڈالرز سے اوپر فیس لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کے آنے جانے اور کھانے کا خرچہ بھی بلانے والے کو ہی دینا پڑتا ہے۔

ابھی کچھ دن پہلے ہی تو انہیں ایک ایسے گھر میں بلایا گیا تھا جسے کرایے دار ماں بیٹی خالی کر رہی تھیں اور انہیں خدشہ تھا کہ پراپرٹی مینیجمینٹ کمپنی ان سے سخت رویہ اپنا سکتی ہے، اس لیے ایک تیسرے فرد کی وہاں موجودگی کرایےداروں کے لیے تقویت کا باعث تھی۔

شوجی موریموتو کچھ نہ کر کے در اصل ایک بہت خاص قسم کی خدمت فراہم کر رہے ہیں ان لوگوں کے لیے جو تنہا کہیں جاتے ہوئے گھبراتے ہیں یا جہاں جانے کے لیے انہیں کسی ہمسفر کی ضرورت ہوتی ہے۔

جاپانی ٹرین

اکثر لوگوں کے ساتھ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ سینیما جا کر فلم دیکھنے کو دل چاہ رہا ہو یا کسی ریستوران میں کھانا کھانے کا موڈ بن رہا ہو مگر وہ صرف اس وجہ سے ارادہ ترک کر دیتے ہیں کیونکہ ساتھ جانے کے لیے کوئی نہیں ہوتا اور اکیلے جانا سماجی طور پرمعیوب لگتا ہے۔

جاپان میں ایسے ہی موقعوں پر موشیموتو لوگوں کے کام آتے ہیں۔

موشیموتو کی خدمات لینے والے افراد پہلی بار ان سے ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر رابطہ کرتے ہیں۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹوئٹر پر ان کے فالوورز کی تعداد ڈھائی لاکھ کے قریب ہے۔

جاپانی ثقافت میں خاندانی اور انسانی وقار اور عزت آبرو جیسی باتوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی لیے گزشتہ دو دہائیوں میں کئی ایسے ادارے وجود میں آئے ہیں جو مختلف کاموں کے لیے کرایے پر افراد فراہم کرتے ہیں۔

آپ کو ڈیٹ پر جانا ہو، کسی ڈانس پارٹی یا کلب جانے کے لیے ساتھی درکار ہو، سوشل میڈیا پر اپنی مقبولیت قائم رکھنے کے لیے تصویر ساتھ کھنچوانے کے لیے 'دوستوں کی ضرورت ہو۔ شادی کے لیے براتی چاہیے ہوں حتیٰ کہ شادی کی تقریب کے لیے نقلی دولہا، جاپان میں سب ہی کچھ آپ کو کرایے پر مل جائے گا اور معاشرے میں آپ کے مقام کو بھی ٹھیس نہیں پہنچے گی۔

مگر موشیموتو اپنے آپ میں تنہا ایک ادارہ ہیں۔ وہ آپ کے لیے دوست یا رشتےدار بننے کی اداکاری نہیں کریں گے نہ ہی آپ کے لیے کسی محفل میں بڑھ بڑھ کر جھوٹ بولیں گے۔ ان کی موجودگی ہی ان کے کلائنٹس کے لیے سب سے اہم ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق موشیموتو نے 'کچھ نہیں' کو بھی 'کچھ' بنا دیا ہے۔

موشیموتو اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی خدمات ایسے مواقعوں کے لیے حاصل کی جا سکتی ہیں جہاں صرف ایک انسان کی ضرورت ہو، جیسا کہ کہیں جا کر کھانا کھانا ہو، کسی خاص دوکان میں شاپنگ کرنی ہو یا کسی ایسے کھیل میں یا پارٹی میں جانا ہو جہاں کسی کے ساتھ کی ضرورت ہو۔

وہ اپنی خدمات کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں کہ اس کام کے میں آپ سے دس ہزار ین ( تقریباً 15000 پاکستانی روپے) لوں گا۔ اس کے علاوہ آپ کوٹرین اسٹیشن سے آنے جانے کا کرایہ دینا ہوگا اوراگر ضرورت ہوئی تو کھانے پینے کا خرچہ بھی۔

"کچھ نہ کرنے والا" کے نام سے مشہور شوجی موریموتو شاید آپ سے اور مجھ سے بھی زیادہ مصروف رہتے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ان کے پاس تقریباً ہر روز ہی کلائنٹس ہوتے ہیں جس کے ساتھ وہ کبھی کھانے پر جارہے ہوتے ہیں تو کبھی کسی کے لیے میراتھان ریس کے اختتام پر تالیاں بجا رہے ہوتے ہیں۔ وہ ایک مریض کے ساتھ اس کے سرجن کے اپائنٹمنٹ پر بھی جا چکے ہیں۔

امریکی چینل سی بی ایس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں موریموتو نے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی گھر والوں اور ساتھیوں سے یہ سننے کی عادت تھی کہ وہ "کچھ نہیں کرنے والے" انسان ہیں یعنی ایک ایسا شخص جو آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے رہ کر دوسرے کو آگے جاتا دیکھتا رہے۔

چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے موریموتو نے بتایا کہ سال 2018 میں جب وہ بےروزگار تھے، انہوں نے سوچا کیوں نہ دوست رشتہ داروں کی اس بات پر مہر لگاتے ہوئے وہ 'کچھ نہ کرنے' کو ہی پیشہ بنا لیں اور اس طرح جاپان کا 'کچھ نہ کرنے والا کرایے کا آدمی' سروس وجود میں آئی۔

موریموتو کن صورتوں میں آپ کے ہمسفر بن سکتے ہیں یہ انہوں نے اپنے اکاؤنٹ پر واضح کردیا ہے۔ ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ 'میں چھوٹے موٹے جوابات دینے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا'۔

یعنی اگر آپ کو کسی دوست کی ضرورت ہو، یا گھر صاف کرانا ہو تو موریموتو کا جواب" نہ "میں ہے۔ اسی طرح ان سے زیادہ باتیں بگھارنے کی امید بھی نہ رکھی جائے۔

ان کی یہی بات ان کے کئی کلائنٹس کے لیے کشش رکھتی ہے جنہیں صرف سننے والے کان کی ضرورت ہوتی ہے جو انہیں مفت مشورے دینے اور پرکھنے سے پرہیز کرے۔ میڈیا انٹرویوز میں انہوں نے بتایا کہ وہ صرف سوالوں کے مختصر جواب دے سکتے ہیں، خود سے کوئی سوال نہیں کرتے۔

شوجی موریموتو کا ٹوئٹر اکاؤنٹ دیکھیں تو ان کی زندگی بڑی خوش رنگ لگتی ہے۔ کسی دن وہ 'وینس آف ٹوکیو' immersive theatre کی سیر کرہے ہوتے ہیں، کبھی ماؤنٹ تکاؤ کی چئیر لفٹ سے تصویریں پوسٹ کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی یونیورسل اسٹوڈیوز اور نینٹینڈو ورلڈ کے مزے لے رہے ہوتے ہیں۔

Morimoto Shoji at Universal Studios Japan

سیر و تفریح ان کی خدمات کا ایک حصہ ہیں۔ اپنی خدمات کے عوض انہیں انسانوں کی زندگی میں جھانکنے کاموقع بھی مل رہا ہے۔

ابھی دو روز پہلے ہی کی ایک ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے موریموتو لکھتے ہیں کہ یہ یک طرفہ ابال نکالنے اور اپنے جذبات کسی کے سامنے کھول کر رکھ دینے کی گزارش تھی۔ ان کے مطابق گزشتہ کچھ عرصہ سب کے لیے مشکل رہا ہے اور لوگوں کے پاس اپنے دل کی بات بتانے والے بھی نہیں رہے۔

جہاں ان کی خدمات حاصل کرنے والوں کی کمی نہیں وہیں ان کے مخالفین بھی موجود ہیں۔ بہت سے جاپانی ان کے اس ذریعہ معاش کو اور اس حوالے سے بین الاقوامی میڈیا پر دیے گیے ان کے انٹرویوز کو اپنے ملک اور ثقافت کی تضحیک سمجھتے ہیں۔ ان کے لیے موشیموتو جاپان اور جاپانیوں کے لیے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔

موشیموتو یہ نفرت انگیز پیغامات بھی اپنے سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں۔

موشیموتو کی خدمات کے اچھوتے پن کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ میڈیا اداروں کے مطابق ان پر اب تک تین کتابیں چھپ چکی ہیں اور ایک ٹی وی سیریل بھی بن چکا ہے