جگجیت سنگھ کی زندگی کے جانے، انجانے پل

جگجیت سنگھ کی زندگی کے جانے، انجانے پل

جگجیت سنگھ نے ستر سال کی عمر پائی، اس میں سے نصف سے زیادہ سال فنی زندگی کے نام کئے جن کا ایک ایک پل دنیا کے سامنے ہے جبکہ کچھ سال ایسے ہیں جن کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ان 'دونوں زندگیوں' کے کچھ ایسے ہی جانے انجانے پل ان پر لکھے گئے مضامین، کتابوں اور رسائل و جرائد سے کشید کرکے ذیل میں درج کئے گئے ہیں ۔ انہیں پڑھئے اور اندازا لگایئے کہ آپ جگجیت سنگھ سے کس حد تک واقف ہیں۔

جگجیت سنگھ بھارتی ریاست راجستھان کے ایک چھوٹے سے علاقے شری گنگانگر میں 8 فروری 1941ء کوپیدا ہوئے تھے ۔ ان کے والد کا نام امرسنگھ اور والدہ کا نام بچن کور تھا ۔ امرسنگھ سرکاری ملازم تھے ۔ جگجیت کی چاربہنیں اور دو بھائی تھے۔ انہیں گھر میں 'جیت 'کے نام سے پکارا جاتا تھا حالانکہ ان کا پیدائشی نام 'جگ موہن' تھا ۔ ان کا تعلق سکھ مت سے تھا۔پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد ان کے والد نے اپنے گرو (استاد اورمذہبی پیشوا) کے مشورے پر ان کا نام "جگجیت "رکھا دیا۔

امرسنگھ کو بہت پہلے ہی اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کے بیٹے کا رجحان موسیقی کی طرف ہے ۔ شاید یہی وجہ رہی ہوگی کہ انہوں نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت کے لئے انہیں موسیقی کے ایک نابینا استاد پنڈت چھگن لال شرما کی شاگردی میں دے دیا۔ یہ سلسلہ کچھ سال تک جاری رہا پھر جگجیت سنگھ کو ایک نئے استاد جمال خان کی شاگردی نصیب ہوگئی۔ جمال خان نے جگجیت کو چھ سال تک موسیقی کی باقاعدہ تربیت دی اور خیال، تھمری و دیگر راگوں سے روشناس کرایا۔

جگجیت سنگھ نے اپنی گائیکی کی شروعات مختلف گورودواروں میں گوروبانی (سکھوں کے مذہبی و مقدس ترانے) گاکر کیا۔ ان کی آواز کی جادوگری نے یہ کمال بھی دکھایا کہ جب انہیں جالندھر کے ڈی اے وی کالج میں داخلہ ملا تو اسکول والوں نے ان کے فن سے متاثر ہوکر ان کی ماہانہ فیس ہی معاف کرادی۔

یہی نہیں بلکہ جب جگجیت کی شہرت جالندھر ریڈیو اسٹیشن تک پہنچی تو انہیں سال میں چھ براہ راست پروگرامز پیش کرنے کی آفر کردی۔۔۔ لیکن اس کے باوجود وہ خود سے مطمئن نہ ہوسکے ۔ اصل میں وہ ممبئی میں پلے بیک سنگر کی حیثیت سے خود کا منوانا چاہتے تھے مگر ابھی یہ منزل بہت دور تھی ۔

سال 1961ء میں پلے بیک سنگنگ کا سپنا ہی انہیں آبائی علاقوں سے نکال کر ممبئی لے آیا۔ لیکن ممبئی میں دن رات کوششوں کے باوجود انہیں کامیابی نہیں ملی جس کے بعد وہ دوبارہ جالندھر جابسے۔ مگر قرار پھر بھی نا آیا۔1965ء میں انہوں نے ایک مرتبہ پھر ممبئی کا رخ کیا ۔ اس بار ایچ ایم وی یعنی 'ہزماسٹرز وائس 'نامی اس وقت کی مشہور ترین ریکارڈ کمپنی نے ان کی آواز میں دو غزلیں ریکارڈ کرنے کی پیشکش کی۔غالباً یہی وہ مقام تھا جہاں انہوں نے سکھ کی حیثیت سے رکھے گئے لمبے لمبے بال کٹوانے اور آئندہ پگڑی نہ پہننے کا فیصلہ کیا۔

جگجیت سنگھ کو اسی دوران کچھ اشتہاری فلموں میں بھی اپنی آواز کا ہنر دکھانے کا موقع ملا۔ جدوجہد کے اسی دور میں ان کی ملاقات چتراسنگھ سے ہوئی جو خودبھی ایک سنگر تھیں۔1970ء میں دونوں نے شادی کرلی اور یہیں سے دونوں کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔

70کی دہائی میں انہوں نے چترا سنگھ کے ساتھ ملکر عام لوگوں کی پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے غزل کی محفلیں سجانے کا ارادہ کیا ۔ بس یہیں سے ان کے فنی سفر نے بھی عروج کی جانب بڑھنا شروع کیا۔ 1975ء میں ایچ ایم وی نے میاں بیوی کی آواز میں غزلوں کی ایک البم "دی ان فورگیٹ ایبلز" کی آفر کی جسے دونوں نے خوشی خوشی قبول کیا۔ اس البم کا مارکیٹ میں آنا تھا کہ جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ کی شہرت کو پر لگ گئے۔

بھارت کے روایتی آلہ ساز 'سارنگی ' اور طبلے کے ساتھ جدید آلات موسیقی کو غزل گائیکی میں متعارف کرانے کا سہرا بھی جگجیت سنگھ کو ہی جاتا ہے۔اس تجربے کو انہوں نے اس قدر کامیابی سے سنوارا کہ انہیں جدید غزل سرائی کا موجود تسلیم کیا جانے لگا۔ ان دونوں کا دوسرا کامیاب البم "کم الائیو" تھا ۔ اس کے بعد دو اور البم آئے اور پھر دونوں کے کنسرٹ آنا شروع ہوگئے۔

جگجیت سنگھ کافلموں میں گانے کا خواب 1980ء میں پورا ہوا جب فلم "ساتھ ساتھ "میں جاوید اختر کی غزلوں اور نظموں کو انہوں نے اپنی آواز دی۔ اسی سال مہیش بھٹ کی فلم "ارتھ" سے جگجیت سنگھ اور چترا سنگھ کی شہرت آسمان چھونے لگی۔ فلم میں "تم اتنا جو مسکرارہے ہو ۔۔"جیسے سدابہار گیت شامل تھے۔

سن 1987ء ان کا نیا البم "بیونڈ ٹائم "ریلیز ہوا ۔ یہ کسی بھی بھارتی موسیقار کی پہلی ڈیجیٹل سی ڈی تھی۔اس کے علاوہ گلزار کے ٹی وی سیریل "مرزا غالب" میں ان کا گانا ایک اور سنگ میل ثابت ہوا۔ اس دوران انہوں نے ایک سے بڑھ کر ایک کامیاب اورمشہور ترین غزلیں اپنے چاہنے والوں کو دیں جن میں " یہ زندگی کسی اور کی، میرے نام کا کوئی اور ہے ، ہونٹوں سے چھولو تم ، تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا، ہزار بار رکے ہم، ہزار بار چلے" جیسی ہٹ غزلیں شامل ہیں۔

ان کا فنی کیرئیر شہرت کی نئی بلندیوں کو چھو رہا تھا کہ اچانک ایک حادثہ ہوگیا۔ 1990ء میں ایک کار ایکسیڈنٹ میں ان کا جواں سال اکلوتا بیٹا ویوک ہلاک ہوگیا۔ اس حادثے نے چترا سنگھ کو سنبھالنے کا موقع نہیں دیا۔ وہ اس حد تک مایوس ہوگئیں کہ انہوں نے گانا ہی چھوڑ دیا۔ادھر جگجیت کے لئے بھی بیٹے کی موت کا غم برداشت کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ اس غم میں وہ آہستہ آہستہ گھلنے لگے تھے۔یہاں تک کہ 1998ء میں انہیں دل کا دورہ بھی پڑا۔ جبکہ 2007ء میں انہیں ہائی بلڈ پریشر مزید بڑھ جانے کے سبب اسپتال میں داخل ہونا پڑا۔

جگجیت سنگھ کی زندگی میں ایک اور طلاطم اس وقت دیکھنے میں آیا جب سن 2009میں چترا سنگھ کی اصل اور ان کی سوتیلی بیٹی مونیکا نے خودکشی کرلی۔چترا سنگھ کی جگجیت سنگھ سے دوسری شادی تھی۔ ممبئی کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس این کوشیک کے مطابق مونیکا اپنی ازواجی زندگی کی الجھنوں کی وجہ سے ذہنی تناوٴ کا شکار تھیں۔مونیکا نے بھی دو شادیاں کی تھیں۔ اپنی دوسری شادی کے ناکام ہونے کے بعد سے مونیکا ڈِپریشن کا شکار تھیں۔

مونیکا کی خودکشی کے وقت جگجیت اور چترا دونوں امریکہ میں تھے۔مونیکا چترا سنگھ کے پہلے شوہر کی بیٹی ہونے کے باوجود جگجیت سے کافی قریب تھیں۔پہلے بیٹے اور بعد میں بیٹی کی موت نے جگجیت کو اندر سے کھوکھلا کردیا تھا۔ پے در پے صدمات کے سبب وہ اکثر بیمار رہنے لگے تھے۔

23ستمبر یعنی آج سے صرف 16دن پہلے اچانک ان کا بلڈ پریشراس حد تک بڑھ گیا کہ ان کے دماغ کی شیریان ہی پھٹ گئی۔انہیں بے ہوشی کی حالت میں ممبئی کے لیلا وتی اسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں 24ستمبر کو ان کے دماغ کی سرجری بھی کی گئی جس کے دوران دماغ میں جم جانے والے خون کو نکال دیا ہے۔ لیکن انہیں پھر بھی سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔ اسی دوران انہیں وینٹی لیٹربھی لگایا گیا لیکن تمام کوششوں کے باوجود انہیں بچایا نہ جاسکا۔