پاکستان کے دفترِ خارجہ نے امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا کے اُس بیان کو مسترد کردیا ہے جِس میں اُنھوں نے کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر امریکہ کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
اس عنوان پر تجزیہ کاروں ڈاکٹر شاہین اختر، کامران بخاری اورجیف سمتھ نے’ وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’اِن دی نیوز‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
شکاگو کانفرنس کا ذکر کرتے ہوئے، انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل سٹڈیز کی محققہ، ڈاکٹر شاہین اختر نے بتایا کہ پچھلے چند ہفتوں کے دوران امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات کے رجحانات اچھے نہیں رہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حالات کو دونوں ملک افغانستان کے مستقبل کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، جب کہ دونوں کو اندرونی دباؤ کا سامنا ہے۔ لیکن، اُن کے بقول، حالات ’برنک مین شپ ‘ کی طرف جارہے ہیں، جو بہت ہی خطرناک موڑ ہے۔ دونوں ملکوں کی اپنی اپنیsensitivitiesہیں جنھیں مدِ نظر رکھنا ہوگا۔
پاکستان کی کوششوں کے سلسلے میں، اُن کا کہنا تھا کہ اِن کو مجموعی طور پر دیکھنا ہوگا، کیونکہ کسی خاص پیمانے سے اُسے ناپنےکی کوشش درست نہ ہوگی، کیونکہ اُن کے بقول، معاملہ بہت ساری باتوں سے جڑا ہوا ہے۔
ڈاکٹر شاہین اختر نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ پاکستان کے اندرونی استحکام اور اُس کی اصل استعداد کو ذہن میں رکھا جائے۔ پھر ساتھ ہی، امریکہ اور طالبان میں جاری مفاہمتی عمل کو نظر میں رکھنا ہوگا۔ اِس سلسلے میں وہ گروپ جو اِس وقت شدت پسند ہیں یا مزاحمت کر رہے ہیں، وہ بھی ایک مرحلے پر اس مفاہمتی عمل کا حصہ بنیں گے۔ اس نظر سے دیکھیں تو پاکستان کے لیے اُس کا ہمسایہ اہم ہے، جس کے ساتھ اس کی سرحدیں مشترک ہیں۔ اِس لیے، عدم استحکام کے شکار سرحدی علاقے اور وہاں کی صورت حال پاکستان کے لیےمددگار ثابت نہیں ہوگی۔
اسٹریٹفر کے نائب صدر، کامران بخاری نے کہا کہ لیون پنیٹا کا بیان بظاہر غیر معمولی ہے، کیونکہ اعلیٰ عہدے داران اِس قسم کی گفتگو سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن، اِس کے پیچھے دو چیزیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ پاکستان کی طرف سے جو’ کاؤنٹر پُش بیک‘ آرہا ہے واشنگٹن اِس سے پہلے واقف نہیں ہے۔
اُن کے بقول، ماضی کو سامنے رکھیں تو واشنگٹن کا پلڑا بھاری رہتا تھا، جب کہ اسلام آباد کا پلڑا کمزور ہوا کرتا تھا۔ تھوڑی بہت لین دین کے بعد اسلام آباد مان لیا کرتا تھا۔ لیکن اُن کے بقول، اب اسلام آباد سے مزاحمت سامنے آرہی ہے،جو ایک نیا ماحول ہے، ایک نئی حقیقت ہے، جس سے پہلے کبھی امریکہ کا سابقہ نہیں پڑا۔
اُنھوں نے کہا کہ آنے والے دِنوں میں، پاکستان و امریکہ کے لیے دو راستے ہوں گے۔ ایک میں تنازع ہوگا کیونکہ پاکستان مزاحمت دکھا رہا ہے۔ پاکستان میںdemocratization of policy makingہو رہی ہے۔ دوسری جانب، جاری تعاون ختم بھی ہوسکتا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کی ضرورت ہے، ساتھ ہی پاکستان امریکہ کے ساتھ مخاصمانہ رویہ جاری نہیں رکھ سکتا۔
امریکی فارن پالیسی کونسل سے وابستہ رسرچ فیلو، جیف سمتھ نے بتایا کہ امریکی وزیر دفاع کا بیان واشنگٹن کی ’مایوسی‘ کو ظاہر کرتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ پاک امریکہ تعلقات میں بہتری لانے کی کوششوں پر اِس بیان کے اچھے اثرات نہیں پڑ سکتے، مگر، اُن کے بقول، یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ امریکہ کے اعلیٰ عہدے دار ایسا بیان دینے پر کیوں مجبور ہوئے، جو عموماً وہ کھلے عام نہیں دیا کرتے۔
جیف سمتھ کے مطابق، اگر پاکستان نے امریکہ کے حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کے لیے جلد اقدام نہ کیا تو اس سے دو طرفہ تعلقات کو شدید دھچکا پہنچ سکتا ہے۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: