وہ سنہ 2005ء میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں آنے والے تباہ کُن زلزلے اور 2010ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران قابل قدر امدادی کام انجام دینے کا شہرہ رکھتے ہیں
واشنگٹن —
جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے نامور مخیر شخص، ہارون نور محمد دنیا بھر میں ہونے والی قدرتی آفات کے دوران انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی کام کے سلسلے میں مشہور ہیں، جن میں 2005ء میں پاکستان کے شمالی علاقوں میں آنے والا تباہ کُن زلزلہ اور 2010ء کا سیلاب شامل ہیں۔
پاکستان سے اُن کا رشتہ اور محبت بہت پرانی ہے۔
وہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے، کراچی گرامر اسکول اور سینٹ پیٹرکس میں ابتدائی تعلیم کے بعد، کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے ایم بی اے کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔
مکمل آڈیو رپورٹ سننے کے لیے ’کلک‘ کیجئیے:
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی خدمت کرکے اُنھیں دلی مسرت ملتی ہے۔
روانی سے اردو بولنے والے اِن معروف سماجی کارکن نے بتایا کہ 2010ء کے سیلاب کے امدادی کام میں مدد دینے کے لیے جنوبی افریقہ سے ایک 13 برس کا لڑکا بھی اُن کے ساتھ پاکستان آیا۔ اُن کے بقول، اولاد کو سماجی خدمت سکھانا سب سے بڑی تعلیم کا درجہ رکھتا ہے۔
ہارون صاحب کا تعلق ’انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سروس‘ سے ہے، جو ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ وہ پاکستان کے معروف سماجی کارکن عبد الستار ایدھی کے ساتھ مل کر امدادی کام میں شرکت کرچکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ جنوبی افریقہ میں مذہب کی مکمل آزادی ہے، اور 10سے 15لاکھ کی مسلمان آبادی آزادی اور عزت کے ساتھ رہتی ہے۔
پاکستان کے بارے میں ایک سوال پر اُن کا پیغام تھا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ’خلوص‘ کا دامن پکڑا جائے۔
اُن کے بقول، ’سب سے پہلے ہم پاکستانی ہیں۔ جب تک یہ جذبہ کار فرما نہیں ہوگا کہ یہ ہمارا وطن ہے ہمیں ہی اسے بچانا ہے، تب تک حالات درست نہیں ہوں گے‘۔
ہارون نور محمد کے الفاظ میں، تمام اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ دانشمند لوگ پاکستان میں بستے ہیں۔ لیکن، اُن کے بقول، افسوس کہ اپنی غلطیوں کے باعث پاکستانی معاشرہ کینسر زدہ ہو کر رہ گیا ہے، جسے درست کرنے کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان سے اُن کا رشتہ اور محبت بہت پرانی ہے۔
وہ جنوبی افریقہ میں پیدا ہوئے، کراچی گرامر اسکول اور سینٹ پیٹرکس میں ابتدائی تعلیم کے بعد، کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے ایم بی اے کی اعلیٰ تعلیم مکمل کی۔
مکمل آڈیو رپورٹ سننے کے لیے ’کلک‘ کیجئیے:
Your browser doesn’t support HTML5
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی خدمت کرکے اُنھیں دلی مسرت ملتی ہے۔
روانی سے اردو بولنے والے اِن معروف سماجی کارکن نے بتایا کہ 2010ء کے سیلاب کے امدادی کام میں مدد دینے کے لیے جنوبی افریقہ سے ایک 13 برس کا لڑکا بھی اُن کے ساتھ پاکستان آیا۔ اُن کے بقول، اولاد کو سماجی خدمت سکھانا سب سے بڑی تعلیم کا درجہ رکھتا ہے۔
ہارون صاحب کا تعلق ’انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سروس‘ سے ہے، جو ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ وہ پاکستان کے معروف سماجی کارکن عبد الستار ایدھی کے ساتھ مل کر امدادی کام میں شرکت کرچکے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ جنوبی افریقہ میں مذہب کی مکمل آزادی ہے، اور 10سے 15لاکھ کی مسلمان آبادی آزادی اور عزت کے ساتھ رہتی ہے۔
پاکستان کے بارے میں ایک سوال پر اُن کا پیغام تھا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ’خلوص‘ کا دامن پکڑا جائے۔
اُن کے بقول، ’سب سے پہلے ہم پاکستانی ہیں۔ جب تک یہ جذبہ کار فرما نہیں ہوگا کہ یہ ہمارا وطن ہے ہمیں ہی اسے بچانا ہے، تب تک حالات درست نہیں ہوں گے‘۔
ہارون نور محمد کے الفاظ میں، تمام اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ دانشمند لوگ پاکستان میں بستے ہیں۔ لیکن، اُن کے بقول، افسوس کہ اپنی غلطیوں کے باعث پاکستانی معاشرہ کینسر زدہ ہو کر رہ گیا ہے، جسے درست کرنے کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے۔