اسرائیل اور فلسطینی تنظیم حماس کے درمیان کئی روز تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد اتوار کو اسرائیلی پولیس کے حصار میں 120 یہودیوں کو مسجدِ اقصیٰ کے احاطے تک آنے کی اجازت دے دی گئی۔
خیال رہے کہ مسجدِ اقصیٰ میں فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان ہونے ہونے والی جھڑپوں کے بعد ہی اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی تھی۔
مسجد اقصٰی کے نگران ادارے اسلامک اتھارٹی (وقف) نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی پولیس نے اتوار کو یہودیوں کو مسجدِ اقصیٰ کے احاطے تک پہنچانے کے لیے نوجوان فلسطینیوں کو راستے سے ہٹایا جب کہ 45 برس سے کم عمر فلسطینیوں کا داخلہ بھی بند کر دیا۔
وقف نے دعویٰ کیا کہ اس دوران چھ فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار بھی کر لیا گیا جب کہ مسلمانوں کے داخلے سے قبل شناختی دستاویزات طلب کی جاتی رہیں۔
SEE ALSO: اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کے بعد دونوں کے فتح کے دعوےالبتہ اسرائیلی پولیس نے کسی بھی عمر کے شخص کے داخلے پر پابندی کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے 'پبلک آرڈر کی خلاف ورزی' پر پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
اسرائیلی پولیس کے ترجمان مکی روسن فیلڈ نے کہا کہ یہ مقام 'باقاعدہ دوروں' کے لیے کھلا تھا اور پولیس نے 'واقعات' کو روکنے کے لیے اس علاقے کا تحفظ کیا تھا۔
تاہم وقف کا کہنا ہے کہ چار مئی کے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے کہ یہودیوں کو اس مقام کا دورہ کرنے کی اجازت دی گئی۔
دس مئی سے شروع ہونے والی یہ لڑائی 11 روز تک جاری رہی تھی جس کے بعد اسرائیل اور حماس جنگ بندی پر متفق ہوئے تھے۔ البتہ جنگ بندی کے کچھ گھنٹوں بعد ہی جمعہ کو مسجدِ اقصیٰ کے کمپاؤنڈ میں نماز جمعہ کے بعد اسرائیلی پولیس اور فلسطینیوں میں تصادم ہوا تھا۔
SEE ALSO: یروشلم کے مقدس مقامات کی اہمیت اور تاریخ کیا ہے؟خیال رہے کہ تاریخی شہر یروشلم مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں، تینوں مذاہب کے ماننے والوں کے لیے مقدس شہر سمجھا جاتا ہے۔
اس شہر میں مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کے لیے تیسرا مقدس ترین مقام ہے جب کہ یہودی بھی اس مقام کو مقدس سمجھتے ہیں۔
اس مقام پر اکثر اسرائیلی اور فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی دیکھی جاتی ہیں۔
حالیہ برسوں میں مذہبی اور قوم پرست یہودیوں کی بڑی تعداد نے اس مقام کا دورہ کیا ہے جس پر فلسطینیوں کو یہ خوف لاحق ہو گیا ہے کہ اسرائیل بالآخر اس کمپاؤنڈ کو حاصل کرنے یا اسے تقسیم کرنے کا منصوبہ کر رہا ہے۔
البتہ اسرائیل کی حکومت بارہا یہ کہہ چکی ہے کہ اس کا اس مقام کی حیثیت تبدیل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں جسے اردن کی نگرانی میں ایک وقف دیکھتا ہے۔
گیارہ روز تک جاری رہنے والی اسرائیل اور حماس کی لڑائی میں غزہ میں اسرائیل نے بمباری کی تھی جب کہ حماس اور دیگر مسلح گروہوں نے اسرائیل کی طرف چار ہزار سے زائد راکٹ برسائے تھے۔
اس لڑائی میں 250 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت فلسطینیوں کی تھی۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے جمعہ کو کہا تھا کہ اس لڑائی سے لگ بھگ سات لاکھ فلسطینی متاثر ہوئے جب کہ بجلی کے نظام اور پانی کی فراہمی کو بھی نقصان پہنچا۔
گروپ کا کہنا تھا کہ غزہ میں بمباری سے ہزاروں افراد اپنے گھروں، کاروبار اور جگہوں سے محروم ہوئے ہیں۔
علاوہ ازیں اتوار کو ہزاروں میونسپل ورکرز اور رضا کاروں نے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس میں ایک ہفتے میں غزہ سے ملبہ صاف کیا جائے گا۔