اسرائیلی پارلیمان نے بستیوں کی تعمیر سے متعلق ایک نئے قانون کی منظوری دی ہے، جو یقینی طور پر عدالت میں چیلنج ہوگا، جس سے دنیا بھر سے اسرائیل پر نکتہ چینی ہوگی۔
’دِی نیسٹ‘ نے پیر کے روز بِل منظور کیا؛ جس قانون سازی کے حق میں 60 اور مخالفت میں 52 ووٹ پڑے، جس کے بل بوتے پر مغربی کنارے میں واقع فلسطینی نجی زمین پر 4000 یہودی بستیوں کو گذشتہ تاریخ سے قانونی حیثیت مل گئی ہے؛ جس خطے کو فلسطینی اپنی آئندہ کی ریاست کا حصہ قرار دیتے ہیں۔
دائیں اور بائیں بازو کے اسرائیلی قانون سازوں نے اس متنازع اقدام پر جذباتی مباحثہ کیا۔ حزب اختلاف نے اِسے مغربی کنارے کو ضم کرنے کی فی الواقع کوشش قرار دیا، جس سے، اُن کے بقول، ہو سکتا ہے کہ اس معاملے پر اسرائیل کو ھیگ کی بین الاقوامی عدالت انصاف کا سامنا کرنا پڑے۔
عدم استحکام اور افراتفری میں اضافہ
ایک قانون ساز نے کہا ہے کہ یہ اقدام ’’اسرائیلی ریاست کے لیے شدید خطرے‘‘ کا باعث ہے؛ اور کہا کہ یہ اسرائیلی قانون کے بھی خلاف ہے۔ اسرائیل کے اٹارنی جنرل نے اِسے غیر آئینی قرار دیا ہے۔
قوم پرست قانون سازوں نے کہا ہے کہ یہودی لوگوں کو اس سرزمین پر قدیم حق حاصل ہے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ اِن بستیوں کو قانونی شکل دینا اسرائیل کے مفاد میں ہے اور اس تاثر کو مسترد کیا کہ اس سے ضم کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
اس اقدام پر فلسطینی برہمی کا اظہار کر رہے ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ’’اس سے حالات کشیدہ ہوں گے، جس سے محض عدم استحکام اور افراتفری جنم لے گی‘‘۔ ترجمان نے اس قانون کو ’’ناقابلِ قبول‘‘ قرار دیا ہے۔
آزادیِ فلسطین تنظیم کے ایک ترجمان نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے، اِسے ’’چوری کو قانونی جواز دینے‘‘ کے مترادف قرار دیا ہے، اگرچہ قانون سازی میں فلسطینیوں کو معاوضہ دینے کی شقیں شامل ہیں یا پھر بدلے میں متبادل زمین دینے کی بات کی گئی ہے۔