اسرائیل کا یہودی بستیوں کی تعمیر تیز کرنے کا فیصلہ

فائل

وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے متعلقہ حکام کو مشرقی یروشلم میں یہودی آباد کاروں کے لیے ایک ہزار نئے گھروں کی تعمیر کی منصوبہ بندی مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔

اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاروں کی نئی بستیوں کی تعمیر کا کام تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اسرائیلی حکومت کے ایک عہدیدار نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے متعلقہ حکام کو مشرقی یروشلم میں یہودی آباد کاروں کے لیے ایک ہزار نئے گھروں کی تعمیر کی منصوبہ بندی مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔

عہدیدار کے مطابق ان میں سے 400 گھر حر حومہ اور 600 گھر رامت شولومو نامی پہلے سے قائم یہودی بستیوں میں تعمیر کیے جائیں گے۔

یہ دونوں بستیاں مشرقی یروشلم کے اس علاقے میں قائم ہیں جسے فلسطینی اپنی مجوزہ ریاست کا دارالحکومت قرار دیتے ہیں۔ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں اس علاقے پر قبضہ کیا تھا جو دیگر فلسطینی مقبوضات کی طرح تاحال برقرار ہے۔

اسرائیلی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیرِاعظم نیتن یاہو نے یہ فیصلہ حکومت کی ایک اتحادی جماعت کے دباؤ پر کیا ہے جس نے یہودی بستیوں کی تعمیر کی اجازت نہ دینے پر حکومت سے علیحدگی کی دھمکی دی تھی۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل وزیر برائے معاشی امور نفتالی بینٹ کی جماعت 'جیوئش ہوم پارٹی' نے وزیرِاعظم سے مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کو دو ہزار نئے گھروں کی تعمیر کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

دائیں بازو کی قوم پرست جماعت نے مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں حکومت کی حمایت سے دستبردار ہونے کی دھمکی دی تھی جس پر عمل درآمد سے وزیرِاعظم نیتن یاہو کی حکومت کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔

تاہم اسرائیلی وزیرِاعظم نے اپنی اتحادی جماعت کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے پیر کو مغربی کنارے کے بجائے مشرقی یروشلم کے علاقے میں ایک ہزار نئے گھروں کی تعمیر کا کام تیز کرنے کا حکم دیا ہے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق یہ ایک ہزار گھر اس رہائشی منصوبے کا حصہ نہیں جس کی منظوری کا مطالبہ 'جیوئش ہوم پارٹی' نے کیا تھا۔

تاہم یروشلم کی بلدیاتی حکومت کے ایک عہدیدار نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ اسرائیلی وزیرِاعظم نے جس منصوبے پر کام تیز کرنے کا حکم دیا ہے، وہ نیا نہیں اور اس کی منصوبہ بندی پہلے سے ہی جاری تھی۔

امریکہ اور فلسطینیوں کا موقف ہے کہ مجوزہ فلسطینی ریاست میں شامل علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر تنازع کے حل میں مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اب تک پانچ لاکھ یہودی آباد ہوچکے ہیں جن کے ان علاقوں کے 24 لاکھ فلسطینی رہائشیوں کے ساتھ تعلقات مستقل کشیدہ رہتے ہیں۔

فلسطینی حکومت نے اسرائیلی وزیرِاعظم کے حکم پر تنقید کرتے ہوئے "مقبوضہ مشرقی یروشلم اور اس کے نواح میں موجود غیر قانونی بستیوں میں توسیع کے منصوبے" کی سخت مذمت کی ہے۔

فلسطین کی مشترکہ قومی حکومت کے وزیرِاعظم رامی حمداللہ نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے علاقے میں کیے جانے والے تمام اقدامات غیر قانونی ہیں جو جلد اپنا جواز کھو بیٹھیں گے۔