اسرائیل کا کہنا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں بستیاں تعمیر کرنے کی کارروائی کی تفتیش پر مامور اقوام متحدہ کے مشن کو داخل نہیں ہونے دیا جائےگا ۔ یہ بات وائس آف امریکہ کے رابرٹ برجر کی طرف سے یروشلم سے بھیجی گئی ایک رپورٹ میں کہی گئی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ حقائق جاننے کی غرض سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے مقررکردہ مشن سے تعاون نہیں کرے گا ، جو یہودی آبادکاری کےفلسطینی شہری حقوق پر پڑنے والے اثرات کی چھان بین کا کام کرے گا۔
نائب وزیر خارجہ ڈینی ایالون نے اسرائیل ریڈیو کو بتایا کہ اسرائیلی حکومت اقوام متحدہ کے وفد کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گی۔
ایالون نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی کونسل انسانی حقوق کا تحفظ کرنے کی خواہاں ہے، لیکن اُنھوں نے کہا کہ یہ ایک سیاسی مشن ہے جس کا کام اسرائیل کی مذمت کرنا ہے اور یہ کہ سب کو پتا ہے کہ اِس کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔
یروشلم میں ہونے والے کابینہ کے ایک ہفتہ وار اجلاس میں اسرائیلی اہل کاروں نے فلسطینی اتھارٹی پر برہمی کا اظہار کیا، جس نے اقوام متحدہ سے یہ اقدام کرنے کا کہا تھا۔
وزیر خزانہ یووال اسٹائنز نے کہا کہ اگر فلسطینی اسرائیل کے خلاف سفارتی ہتھکنڈے استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اُس کا نتیجہ معاشی تعزیرات کی صورت میں نکلے گا۔
اسرائیل اُس سخت اقدام کو لاگو کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہےجس کا وہ ماضی میں بھی استعمال کرتا رہا ہے، یعنی فلسطینی اتھارٹی کوٹیکس کی مد میں دیے جانے والے کروڑوں ڈالر روک لینا۔
فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کا اقدام ضروری ہوگیا ہے ، کیونکہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاری کی پالیسی سے’دو ریاستی حل‘ کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔ فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی کے الفاظ میں، اسرائیل امن کے قیام کے لیے ہونے والے مذاکرات کی بحالی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ بامقصداور تعمیری مذاکرات جاری کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسرائیل بستیاں تعمیر کرنے کا کام روک دے۔
اسرائیل بستیوں کی تعمیر کو منجمد کرنے کے فلسطینی مطالبے کو مسترد کرتا ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کی بحالی بغیر پیشگی شرائط کےہونی چاہیئے۔ بین الاقوامی ثالث اب تک سوچ کی اِس خلیج کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے مشن کے بارے میں تنازع کے باعث امن عمل کی راہ میں تین برس سے جاری تعطل کو مزید تقویت ملی ہے۔