اسرائیل نے بڑے پیمانے پر فلسطینی علاقوں میں تلاشی کا آپریشن شروع کر دیا

اسرائیلی فورسز۔ فائل فوٹو

اسرائیلی سیکیورٹی فورسز نے تل ابیب میں چاقوؤں کے وار کرکے تین اسرائیلیوں کو ہلاک کرنے کے شبہ میں دو فلسطینیوں کی گرفتاری کے لیے جمعے کو فلسطینی علاقوں میں بڑے پیمانے پر تلاشی کا عمل شروع کردیا ہے ۔

جمعرات کو اسرائیل کے یوم آزادی کے موقع پر ہونے والا چاقو کا یہ تازہ ترین حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب یروشلم میں یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان مقدس مقام پر تشدد کی وجہ سے اسرائیل اور فلسطینیوں میں کشیدگی عروج پر ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے کے قصبے، جنین میں، جوعسکریت پسندوں کا گڑھ شمار ہوتا ہے، انیس اور بیس سال کے دومشتبہ افراد کو تلاش کررہی ہے، کیونکہ اس طرح کے کئی حملے جنین یا اس کے اطراف سے آنے والوں نے ہی کیے تھے۔ ان کی گرفتاری کے لیے چھاپوں کے دوران بعض مقامات پر فائرنگ کے تبادلے بھی ہوئےہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے جمعرات کو سیکیورٹی حکام سے ملاقات کے بعد کہا تھاکہ ہم دہشت گردوں اور ان کے معاون ماحول پر ہاتھ ڈالیں گے اور وہ اس کی قیمت ادا کریں گے ۔ حکام کے مطابق حملہ آور ایک گاڑی میں فرار ہوگئے تھے۔

طبی ماہرین نے تل ابیب کے قریب کٹر مذہبی شہر ایلاد کاخوفناک منظر بیان کیاہے جہاں ہلاک ہونے والے تین افراد کے علاوہ چار دیگر زخمی بھی ہوئے تھے جن میں سے ایک کی حالت نازک ہے۔

اسرائیلی میڈیا نے ہلاک ہونے والوں کی شناخت یوناتن باوکوک، بوزگول اور اورین بن یفتہ کے نام سے کی ہے ، تینوں کی عمریں تیس سے چالیس سال کے درمیان ہیں ، انھوں نے پسماندگان میں سولہ بچے چھوڑے ہیں۔

اسرائیل نے جمعرات کو اپنا یوم آزادی منایا، اس موقع پر قومی تعطیل ہوتی ہے جس میں لوگ عام طور پر باربی کیو اور ائرشوز میں شرکت کرتے ہیں۔

وزیر دفاع بینی گانٹز نے مغربی کنارے کی اس ناکہ بندی میں توسیع کردی ہے جو تعطیل سے پہلے فلسطینیوں کے اسرائیل میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے نافذ کی گئی تھی۔

واشنگٹن میں سیکریٹری آف اسٹیٹ اینٹنی بلنکن نے حملے میں معصوم مردوں اور خواتین کو نشانہ بنانے کی مذمت کی ہے۔

جمعرات کو پریس کانفرنس سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ یہ ایک خوفناک حملہ تھا جس میں بے گناہ مردوں اور عورتوں کو نشانہ بنایا گیا اور خاص طور پر یہ گھناونا حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب اسرائیل اپنا یوم آزادی منارہا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ہم اپنے اسرائیلی دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ قریبی رابطے میں ہیں اور ان کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہیں۔

گزشتہ ماہ سیکریٹری خارجہ بلنکن نے اسرائیلی اور فلسطینی حکام سے ملاقات کی تھی اور اسرائیل کے الحاق شدہ شہر یروشلم میں مسجد اقصی کے احاطے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔

امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی جمعرات کو اس حملے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انھوں نے ٹوئٹ کیا کہ ہم متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ گہری تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور زخمیوں کی مکمل صحت یابی کی خواہش کرتے ہیں اور ہمیشہ کی طرح ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ وہ اس دہشت گردی کا مقابلہ کررہا ہے۔

فلسطینی صدر محمود عباس نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔ سرکاری خبررساں ادارے وفا نیوز ایجنسی کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں فلسطینی اور اسرائیلی شہریوں کا قتل جب ہم سے ہر کوئی استحکام اور کشیدگی ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے، حالات کےمزید بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔

لیکن غزہ کی پٹی پر حکمراں فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اس حملے کو سراہا ہے اور اسے یروشلم کے مقدس مقام پر ہونے والے تشدد کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

مسجد اقصیٰ کا کمپاونڈ اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام ہے جو ایک پہاڑی چوٹی پر واقع ہے، یہ یہودیوں کے لیے بھی مقدس مقام ہے جسے ٹمپل ماونٹ کہتے ہیں۔ دونوں مذاہب کے لیے اس حساس جذباتی مقام پر حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان بار بار جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔

غیر رسمی طے شدہ انتظامات کے تحت یہودیوں کو اس جگہ کا دورہ کرنے کی اجازت ہے لیکن وہ وہاں عبادت نہیں کرسکتے ۔ لیکن حالیہ برسوں میں پولیس کی حفاظت میں یہودی بڑے پیمانے پر اس مقام کا دورہ کرتے رہے اور بہت سے لوگوں نے وہاں عبادت بھی کی،جس سے فلسطینیوں کے علاوہ اردن میں بھی غم وغصہ پھیلا۔

جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اسٹیٹس کو برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن حماس اس تشدد کو ہوا دے رہی ہے۔