اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نفتالی بینٹ اور ان کے خاندان کو اس ہفتے کے دوران دوسری بار ڈاک کے ذریعے موت کی دھمکی اور رائفل کی گولی ملی ہے۔
خبررساں ادارے اے پی کے مطابق ،اس معاملے سے واقف ایک اسرائیلی اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان دھمکیوں کا ہدف وزیر اعظم بینٹ کا 17 سالہ بیٹا ہے ۔
ایک چھوٹی سی قوم پرست جماعت کی قیادت کرنے والے بینٹ کو اسرائیل کے سخت گیر لوگ شدید تنقید کا نشانہ بناتے اور ان پر اپنے نظریے کو ترک کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ 1995 میں وزیر اعظم یزاک رابن کو فلسطینیوں کے ساتھ امن کوششوں کے مخالف ایک انتہائی سخت گیر یہودی نے قتل کر دیا تھا۔
حال ہی میں اسرائیلی شہروں پر متعدد مہلک فلسطینی حملوں ، مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کے چھاپوں اور یروشلم کے ایک حساس مقام پر فلسطینیوں اور اسرائیلی پولیس کے درمیان جھڑپوں کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہواہے۔
اسرائیل کے ہولوکاسٹ یادگاری دن کے موقع پر قوم سے خطاب میں وزیر اعظم بینٹ نے اسرائیلی معاشرے میں پائی جانے والی گہری دراڑ پر افسوس کا اظہار کیا اور شہریوں کو متنبہ کیا کہ وہ اندرونی تقسیم کو بڑھاوا دے کر معاشرے کا شیرازہ نہ بکھرنے دیں۔
انھوں نے قومی ٹی وی پر بدھ کی رات ایک تقریب کی نشر کی جانے والی اپنی تقریر میں کہا کہ ہم گروہ بندی کے ذریعہ اسرائیل کو اندر سے توڑ دینے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
بینٹ کی تقریر بالکل ذاتی تناظر میں تھی جو اسرائیل میں سال کے سب سے بڑے دن پر کی گئی ۔ منگل کو ان کے خاندان کو پہلا خط ملا تھاجس میں ایک آتشیں گولی اور جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی تھی۔ اسرائیلی حکام نے وزیر عظم اور ان کے اہل خانہ کے گرد حفاظتی انتظامات سخت کردیے ہیں اور تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے کہا ہے کہ وزیر اعظم کے 17 سالہ بیٹے یونی کو جمعرات کو دھمکی ملی تھی ۔ پولیس نے کہا ہے کہ وہ دونوں واقعات کی تحقیقات کررہی ہےاور ان تحقیقات کی کچھ تفصیلات بھی انھوں نے جاری کی ہیں۔
وزیر اعظم بینٹ ایک اتحاد کی قیادت کررہے ہیں جو حال ہی میں اپنی پارلیمانی اکثریت بھی کھوچکا ہے۔ ان کی حکومت آٹھ جماعتوں پر مشتمل ہے جو سابق وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو کے مشترکہ طور پر مخالف ہیں ، لیکن ان میں کچھ زیادہ اتفاق رائے نہیں ہے۔بتایا جاتا ہے کہ اپوزیشن لیڈر نتن یاہو نے ان کے درمیان اختلافات کو گہرا کرنے کے لیے سخت محنت کی ہے۔
بینٹ کی حکومت کا قیام چار غیر حتمی انتخابات کے بعد عمل میں آیا تھا، جس سے فلسطینیوں کے ساتھ تنازع اور مذہبی اور سیکولر یہودیوں کے درمیان تعلقات جیسے کلیدی مسائل پر معاشرے میں موجود دراڑ کو اجاگر ہوگیا تھا۔
(خبر میں مواد خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا ہے)