اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ کی پٹی پر لڑائی بدھ کے روز بھی جاری رہی۔ اسرائیل نے غزہ شہر پر فضائی حملہ جب کہ حماس نے سرحد پر راکٹ حملے کیے ہیں۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لبنان سے بھی نامعلوم حملہ آوروں کی جانب سے اسرائیل پر چار راکٹ پھینکے گئے ہیں جس کے توپ خانے سے جواب دیا گیا ہے۔ دوسری جانب علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر جنگ بندی کے لیے کوششیں بھی جاری ہیں۔
اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بدھ کے روز غیر ملکی سفارت کاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک مؤثر دفاع میں مصروف ہے اور اس ضمنمیں اسے حمایت درکار ہے۔
دس مئی سے شروع ہونے والی لڑائی میں اسرائیلی فضائی حملوں کے دوران اب تک غزہ میں 217 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ میں وزارت صحت کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 63 بچے اور 35 خواتین بھی شامل ہیں۔ ادھر حماس کے اسرائیل پر راکٹ حملوں میں کم از کم بارہ اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں، جن میں ایک چھ سالہ بچہ بھی شامل ہے۔
نیتن یاہو نے اسرائیل کی فضائی مہم پر ہونے والی تنقید کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ ان کی افواج عام شہریوں کی ہلاکت سے گریز کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔
اسرائیل نے لبنان کی جانب سے بھی اپنی سرزمین پر چار راکٹ داغے جانے کے جواب میں بدھ کے روز اپنے توپ خانے سے لبنان میں متعدد اہداف پر حملے کیے ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم کسی بھی محاذ پر ہر طرح کی صورت حال کے لیے تیار ہیں۔
اسرائیلی فوج کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے اس نے ایک راکٹ کو راستے میں ہی روک لیا تھا جب کہ باقی ماندہ زیادہ تر راکٹ کھلے علاقوں میں گرے۔
اگرچہ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ کس نے راکٹ فائر کیے ہیں، تاہم لبنان میں سیکیورٹی ذرائع نے یہ تصدیق کی ہے لبنان کے شمالی ساحلی شہر صور کے قریب واقع ایک گاؤں سے اسرائیل کی جانب چار راکٹ داغے گئے تھے۔
راکٹوں اور توپ خانے کے حملوں میں دونوں جانب کسی جانی یا مالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کے ایک گروپ نے منگل کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل کے غزہ کے گنجان آباد علاقوں میں فضائی حملے عام شہریوں اور املاک کے بلاامتیاز اور غیر متناسب حملوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے اسرائیل پر حملوں کو بھی سوچے سمجھے اور غیر ذمہ دارانہ حملے قرار دیا اور کہا کہ دونوں فریقوں کے اقدامات جنگی جرائم کی حدود میں شمار ہو سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گٹریس نے منگل کے روز ایک ٹویٹ میں کہا کہ غزہ میں زندگی شدید بحران سے دوچار ہے اور شہر میں گھروں اور انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اقوام متحدہ کے پروگرام کے لیے فنڈز فراہم کرے، تاکہ فلسطینی علاقوں میں امدادی کام کیا جا سکے۔
فرانس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مصر اور اردن کے ساتھ مشاورت کے بعد ایک قرارداد جمع کرائی ہے جس میں لڑائی بند کرنے پر زور دیا گیا ہے۔
فرانس کے صدر ایمانول میکخواں کے دفتر کے مطابق تینوں ملکوں نے جن تین نکات پر اتفاق کیاہے، ان میں کہا گیا ہے کہ فائرنگ بند ہونی چاہیے، جنگ بندی کا وقت آ گیا ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس معاملے پر فوری غور کرے۔ صدر میکخوان نے منگل کے روز مصر کے صدر عبدالفتح السیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ دوئم سے بھی ٹیلی فون پر بات کی۔
امریکہ، جو اسرائیل کا اتحادی ہے، سلامتی کونسل میں ویٹو پاور رکھتا ہے۔ اس نے اب تک سلامتی کونسل کو جنگ بندی کی حمایت میں بیان جاری کرنے سے روک رکھا ہے۔ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ایسا بیان جنگ کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششوں میں معاون ثابت نہیں ہو گا۔
وائٹ ہاوس کی ترجمان جان ساکی نے منگل کے روز صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ہمارا مقصد اس تنازعے کا خاتمہ ہے اور ہم روزانہ بنیادوں پر صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس کے لیے کیا صحیح حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ یہ عمل ،ان کے بقول، خاموشی سے جاری ہے اور پردے کے پیچھے اس معاملے پر تفصیلی بات چیت ہی اس لمحے ہماری حکمت عملی ہے۔
اقوام متحدہ نے کہا کہ وہ مصالحانہ کوششوں کے لیے متحرک رہا ہے، تاکہ تشدد کا خاتمہ ہو سکے۔ تاہم اقوام متحدہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ درجن بھر تیل کے ٹرک غزہ بھجوا سکا ہے اور اس کے علاوہ مزید امداد نہیں بھجوائی جا سکی ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع میں ’غزہ کی پٹی‘ اتنی اہم کیوں ہے؟اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے عسکریت پسند گروپ حماس کو غیرمتوقع حد تک نقصان پہنچایا ہے اور اسے کئی سال پیچھے دھکیل دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس کے حملوں کا اسرائیلی جواب ان کے الفاظ میں اسرائیل کے دشمنوں کے لیے بھی ایک سبق ہے۔
فریقین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیشِ نظر اسرائیل سے امن معاہدہ کرنے والے مشرقِ وسطیٰ کے ملک اردن نے اسرائیلی سفیر کو ملک سے بے دخل کرنے کی دھمکی دی ہے۔
اردن کے وزیرِ اعظم بشر الخصاونہ نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ان کا ملک اسرائیلی سفیر کو بے دخل کر سکتا ہے۔
SEE ALSO: اسرائیل فلسطین تنازع: صدر بائیڈن کا ایک ہفتے میں تیسری بار نیتن یاہو کو فون، جنگ بندی پر زور