اسرائیل نے ایک اسلام نواز گروپ پر پابندی لگانے کا اعلان کیا ہے، جس پر الزام ہے کہ اُس نے یروشلم کے مقدس مقام کے معاملے پر پُرتشدد کارروائیوں پر اکسانے میں کلیدی کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے اندر کشیدگی بھڑک اٹھی جو تحریک ہفتوں تک جاری رہی۔
حکومت نے منگل کے روز اعلان کیا کہ وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو کی سکیورٹی پر مامور کابینہ نے طویل عرصے سے متوقع اِس اقدام کی منظوری دی ہے۔
بعدازاں، پولیس کے مطابق، سلامتی افواج نے اسرائیل میں تحریک اسلامی سے وابستہ 17 تنظیموں پر بندش عائد کر دی ہے، جس دوران نقدی ، دستاویزات اور کمپیوٹر برآمد کیے گئے۔ تحریک زیادہ تر شمالی اسرائیل میں متحرک ہے۔
اسرائیل کے وزیر برائےعوامی سلامتی، گیلاد اردان نے تحریک پر اسرائیل کے خلاف دہشت گردی پر اکسانے کا الزام لگایا ہے۔
تحریک کے سربراہ، رعد صلاح نے اسرائیل کے فیصلے کو غیرمنصفانہ قرار دیا اور اس بات کا عہد کیا کہ اُن کی جماعت اس اقدام کے خلاف جدوجہد کرے گی۔
صلاح اس ماہ کے اواخر میں 11 ماہ کی قید کاٹنا شروع کریں گے۔ اُن پر الزام ہے کہ اُنھوں نے سنہ 2007میں ایک واعظ کیا تھا، جس میں اشتعال انگیز باتیں کی گئی تھیں، جس میں اُنھوں نے اسرائیل میں مبینہ نئی شورش کا اعلان کیا تھا۔
اسرائیل کی اسلامی تحریک اسرائیلی عربوں کے لیے مذہبی اور تعلیمی خدمات فراہم کرتی ہے۔
اس تحریک کا مقصد مبینہ طور پر یہ غلط فہمی پھیلانے کی کوشش کرنا تھا کہ اسرائیل یروشلم کی مقدس زیارت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، جسے مسلمان الاقصیٰ مسجد جب کہ یہودی ’ٹیمپل ماؤنٹ‘ کہتے ہیں۔
یہ مقام پُرتشدد کارروائیوں کا مرکز بنا رہا ہے، جس میں گذشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران فلسطینیوں کی جانب سے کیے گئےحملوں میں 14 اسرائیلی ہلاک ہوئے؛ جب کہ پولیس کے مطابق، مغربی کنارے اور غزہ میں حملوں اور پُرتشدد مظاہروں کے دوران حملوں میں ملوث کم از کم 78 فلسطینی ہلاک ہوئے۔
اردان نے کہا ہے کہ تحریک اسلامی، حماس، داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے اشتراک نے دنیا بھر کے ساتھ ساتھ اسرائیل میں دہشت کی ایک لہر پیدا کر رکھی ہے۔ اسرائیل کے لیے یہ صحیح وقت ہے کہ وہ دہشت گردی پر اکسانے والوں اور لڑائی پر ترغیب دینے والوں کے خلاف دستیاب تمام ذرائع کام میں لائے۔ یہی کچھ ہے جس میں تحریک اسلامی ملوث ہے‘۔