امریکہ کے خصوصی مندوب کا دورہ مشرق وسطیٰ

مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب جارج مچل، اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے سوال پر کسی سمجھوتے کے بغیر اس ہفتے اسرائیل سے چلے گئے ۔ دونوں فریقوں کے درمیان بنیادی امور پر بہت زیادہ اختلافات موجود ہیں اور باہم اعتماد کی کمی بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔

امریکی مندوب جارج مچل دو دن کی میٹنگوں کے بعد جن میں انھوں نے اسرائیلی اور فلسطینی عہدے داروں کو ایک دوسرے کی تازہ ترین تجاویز سے آگاہ کیا، اسرائیل سے رخصت ہو گئے ۔ امریکی ثالث کے دورے کے خاتمے پر ، اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مشترکہ امور پر اتنا اتفاقِ رائے نہیں ہو سکا کہ وہ براہِ راست بات چیت شروع کر سکتے۔ امریکی عہدے داروں نے اس امید کا اظہار کیا تھا کہ اس ہفتے براہ راست مذاکرات کے آغاز کا اعلان ہو جائے گا۔ یہ مذاکرات 2008 کے آخر میں منقطع ہوگئے تھے۔

تیل ابیب میں انسٹی ٹیوٹ آف نیشنل سکیورٹی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر، Oded Eran، فلسطینیوں کے ساتھ پچھلے مذاکرات میں اسرائیلی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔انھوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بنیادی امور پر، جیسے یروشلم، پناہ گزیں اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کی سرحدوں کے سوال پر اختلافات اب بھی بہت وسیع ہیں۔’’اس وقت تو مسئلہ یہ ہے کہ اس سوال پر کوئی سمجھوتہ ہو کہ مذاکرات کا دائرۂ کار کیا ہوگا۔ اس سوال پر سمجھوتہ نہ ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں کے موقف میں کتنا گہرا فرق ہے ۔‘‘

فلسطینی صدر محمود عباس کی تجویز کے مطابق ، براہ راست مذاکرات کے لیے واضح ڈھانچا ضروری ہے جس میں اسرائیلی مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی طرف سے یہودی بستیوں کی تعمیر کو مکمل طور پر ختم کرنا شامل ہے ۔

فلسطینی یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تیار ہو جس کی سرحدیں وہی ہوں گی جو 1967 عرب اسرائیلی جنگ سے پہلے تھیں۔ اس جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی، اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا۔

اس ہفتے اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجامن نیتن یاہو نے مسٹر مچل کے ساتھ بات چیت کے لیے جاتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کوئی پیشگی شرائط نہیں چاہتا۔ اس کے بعد رپورٹروں کے سامنے ان کے درمیان اس طرح کا مکالمہ ہوا: مسٹر نیتن یاہو نے کہا ، مذاکرات شروع ہونے چاہئیں۔ میرا پیغام بس اتنا ہی ہے۔ مسٹر مچل نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے۔ آپ نے اس سے زیادہ مختصر بیان پہلے کبھی نہیں دیا۔ مسٹر نیتن یاہو نے جواب دیا کہ میں گذشتہ ڈیڑھ برس سے جو کچھ کہتا رہا ہوں، یہ اس کا خلاصہ ہے ۔ ہمیں کوئی پیشگی شرائط عائد نہیں کرنی چاہئیں اور براہ راست مذاکرات شروع کرد ینے چاہئیں۔ میری تجویز یہی ہے۔

اسرائیل نے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر پر جو جزوی عارضی پابندی لگائی تھی وہ اگلے مہینے ختم ہو جائے گی۔ مسٹر نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل اس پابندی میں توسیع نہیں کرے گا۔

تجزیہ کار Oded Eran کہتے ہیں کہ مسٹر نیتن یاہو کے خیال میں، اگر وہ براہ راست مذاکرات کے بغیر تعمیر پر پابندی پر تیار ہو گئے ، تو اس سے اسرائیل کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔’’اسرائیلی کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم یہ بات مان لیتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے پہلے ہی تین بنیادی امور میں سے ایک میں، رعایت د ے دی ہے ۔ آخر ہم یہ رعایت کیوں دیں؟‘‘

فلسطینی لیڈر کہتے ہیں کہ پچھلے مذاکرات کے بعد، جن کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہوا، وہ محتاط ہو گئے ہیں۔ وہ اس بات کی ضمانت چاہتے ہیں کہ اگر کوئی نئے مذاکرات ہوتے ہیں، تو ان کے نتیجے میں یہ تنازع ختم ہو جائے گا۔مغربی کنارے کی Bir Zeit University میں سیاسیات کے پروفیسر اور فلسطینی کابینہ کے رکن علی جرباوی کہتے ہیں’’ہم نے بہت سال پہلے مذاکرات شروع کیے تھے اور آج تک کوئی تصفیہ نہیں ہو سکا ہے ۔ تو کیا ہمیں یقین ہے کہ اگر اس بار ہم براہِ راست مذاکرات میں گئے، تو کوئی سمجھوتہ ہو جائے گا؟‘‘

فلسطینی لیڈروں نے 2008 کے آخر میں، جب اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں عسکریت پسندوں کے خلاف 22 روزہ حملہ شروع کیا تھا، براہِ راست مذاکرات منقطع کر دیے تھے ۔