دوبارہ وزیراعظم بنا تو الگ فلسطینی ریاست نہیں بنے گی: نیتن یاہو

حکومت بنانے کے لیے 61 نشستیں حاصل کرنا ضروری ہیں اور فی الوقت کوئی بھی جماعت یہ واضح برتری حاصل کرتی دکھائی نہیں دیتی ۔

اسرائیل میں منگل کو عام انتخابات کے لیے پولنگ ہوئی جس میں بنجمن نیتن یاہو چوتھی بار وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

حالیہ انتخابی جائزے 120 رکنی پارلیمنٹ میں نیتن یاہو کی قدامت پسند جماعت "لیکود" صیہونی اتحاد کے مقابلے میں کم نشستیں حاصل کرتی نظر آتی ہے۔

حکومت بنانے کے لیے 61 نشستیں حاصل کرنا ضروری ہیں اور فی الوقت کوئی بھی جماعت یہ واضح برتری حاصل کرتی دکھائی نہیں دیتی ۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات وزیراعظم نیتن یاہو کی قیادت کے لیے ایک طرح کا ریفرنڈم بھی ہیں۔

اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست سے متعلق اپنے گزشتہ موقف کے برعکس تازہ بیان میں کہاہے کہ اگر وہ دوبارہ وزیراعظم بنے تو وہ کبھی بھی الگ فلسطینی ریاست کی حمایت نہیں کریں گے۔

بنجمن نیتن یاہو

یہ انتخابات نیتن یاہو کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں جو چوتھی بار وزیراعظم بننے کے لیے کوشاں ہیں اور انھوں نے صہیونی اتحاد (زائونسٹ یونین) کے مقابلے میں عوام کی حمایت کرنے کے لیے سماجی و اقتصادی مسائل معاملات کی بجائے سلامتی کے معاملات کو توجہ کا مرکز بنایا ہے۔

پیر کو نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ وہ اکیلے ہی اسرائیل کا دفاع کر سکتے ہیں۔

نیتن یاہو پہلے کہتے رہے ہیں کہ وہ فلسطین کی ریاست کو قبول کر لیں گے لیکن اب وہ اسے خطے میں اسلامی عسکریت پسندی کے پھیلاؤ سے تعیبر کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ دوبارہ منتخب ہوئے تو فلسطین آزاد ریاست حاصل نہیں کر سکے گا۔

اسرائیلی نیوز ویب سائیٹ این آر جی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "جو کوئی بھی فلسطینی ریاست کے قیام یا پھر اپنے علاقوں سے دستبردار ہونے کا ارادہ رکھے گا تو اس کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ وہ خطے کو اسرائیل کے خلاف بنیاد پرست اسلامی دہشت گردوں کے حوالے کر دے گا۔"

اسرائیل کی لیبر پارٹی کے رہنما اسحاق ہرتزوگ امریکہ کی حمایت سے فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ امن مذاکرات کی بحالی کے حامی ہیں۔ ان کی ایک اور ساتھی تسیپی لیونی، نیتن یاہو کی قدامت پسند مخلوط حکومت کی رکن رہتے ہوئے محمود عباس سے مذاکرات کے امور دیکھتی رہی ہیں۔ یہ مذاکرات گزشتہ اپریل میں تعطل کا شکار ہو گئے تھے۔

ہرتزوگ اور لیونی نے نیتن یاہو پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے ایران کے جوہری پروگرام اور فلسطینیوں سے متعلق بلا وجہ خوف پھیلا کر ووٹروں کی توجہ اسرائیل میں مہنگائی اور دیگر سماجی مسائل سے ہٹانے کی کوشش کی ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق دراصل یہی اسرائیل کے اہم مسائل ہیں۔