ایسے میں جب حریف علاقائی ملک ایک دوسرے کے خلاف سخت الفاظ استعمال کر رہے ہیں اور اپنے دفاع میں حملے کی دھمکی دے رہے ہیں، اسرائیل ایرانی عوام کے ساتھ رابطے بڑھانے کی نئی کوششیں کر رہا ہے۔
اِسی کاوش کے سلسلے میں، سرکاری رقوم سے ایران کے لیے نشریات پیش کرنے والے فارسی زبان کے ریڈیو اسٹیشن کا دوبارہ اجرا کیا گیا ہے، جو آٹھ ماہ سے بند پڑا ہوا تھا۔
تینتالیس برس کے نتانل توبیاں کو، جن کا ایران کے شہر اصفہان سے تعلق رہا ہے، اُنھیں ’ریڈیو شو‘ کے نئے اسرائیلی سربراہ مقرر کیے گئے ہیں، جو اس کے میزبان ہیں۔
وہ 30 برس قبل اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اسرائیل منتقل ہوئے، جنھیں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد یہودیوں کے خلاف امتیازی سلوک درپیش تھا۔
تین عشرے بعد بھی، ایران اور اسرائیل کے مابین تناؤ میں اضافہ جاری ہے۔
ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ خامینائی کی ویب سائٹ نے اُن کی ایک وڈیو پوسٹ کی ہے جس میں وہ یکم مارچ کو اپنی 2015ء کی پیش گوئی پر شامی سیاحوں کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں کہ اسرائیل، جسے وہ یہودی سرکار کہہ کر پکارتے ہیں، 25 برس کے اندر اندر صفحہٴ ہستی سے مٹ جائے گا۔
خامنائی نے کہا کہ ’’میں نے کہا کہ تم (اسرائیل) اگلے 25 برس نہیں دیکھ پاؤ گے۔ اللہ کی مہربانی سے وہ دِن آئے گا‘‘۔
پانچ روز بعد، اسرئیلی وزیر اعظم بینجامن نیتن یاہو نے واشنگٹن میں اسرائیل کے حامی امریکی گروپ ’اے آئی پی اے سی‘ کو بتایا ہے کہ وہ پُرعزم ہیں کہ وہ ایران کو جوہری طاقت نہیں بننے دیں گے، حالانکہ اس امکان کو رد کیا گیا ہے کہ وہ ایسی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ ’’گذشتہ ہفتے، ہم نے’عیستر کی کتاب‘ میں ماضی میں فارس کے لوگوں کی جانب سے ہمارے لوگوں کو مٹا دینے کی کوشش کے بارے میں پڑھا ہے۔ وہ اُس وقت ناکام ہوئے، اب بھی ناکام ہوں گے‘‘۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے ایرانی عوام کے بارے میں ایک مفاہمتی انداز بھی اپنایا، اس بات پر اظہار ہمدردی کرتے ہوئے جسے وہ اُن کی تکالیف، امیدوں اور ہمت کا اعتراف قرار دیتے ہیں، جو وہ اسلام پرست حکمرانی سے نجات کی وکالت کرتے ہیں۔ ہم ایران کے اُن لوگوں کےساتھ کھڑے ہیں جو آزادی کا ساتھ دے رہے ہیں‘‘۔
اسرائیل کی جانب سے ریڈیو پر فارسی پروگرام کی نشریات ایرانیوں سے قربت پیدا کرنے کا ایک اور ثبوت ہے۔
یہ نشریات ’اسرائیلی پبلک براڈکاسٹنگ کارپوریشن‘ کی جانب سے پیش کی جاتی ہیں، جسے ’کے اے این‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ اس نے گذشتہ مئی میں کام کرنا شروع کیا، جو سرکاری رقوم سے چلنے والی نشریات کا ایک حصہ ہے۔
اسرائیل کئی دہائیوں سے فارسی زبان کی ریڈیو نشریات پیش کرتا رہا ہے۔ لیکن، ’کے اے این‘ کے آغاز کے بعد، سابقہ ’اسرائیل براڈکاسٹنگ اتھارٹی‘ کے بند ہونے کے بعد یہ نشریات بند ہوگئی تھیں۔
فارسی پروگرام کے سابق سربراہ، ایران میں جنم لینے والے صحافی اور تبصرہ نگار، مناشے امیر 57 برسوں سے ’وائس آف اسرائیل‘ کے فارسی بڑاڈکاسٹر رہ چکے ہیں۔ جنوری میں اُنھوں نے اسرائیلی مغربی کنارے کی ’ہرادار‘ کی بستی میں اپنے گھر سے اپنے ذاتی ’فارسی نیوز شو‘ کی میزبانی کا آغاز کیا۔
’وائس آف امریکہ‘ کی فارسی سروس کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں، ’کے اے این‘ کے تل ابیب کے نئے اسٹوڈیو سے بات کرتے ہوئے، توبیان نے بتایا کہ اُنھوں نے امیر کے تجربات سے سیکھنے کی کوشش کی ہے، اور ساتھ ہی فارسی پروگرامنگ کے نت نئے انداز اپنانے کی بھی کوشش کی ہے۔
توبیان کے بقول ’’ہمارا ’ٹارگیٹ آڈیئنس‘ نوجوان اسرائیلی اور ایرانی ہیں، جو بھی فارسی بولتا ہو اور اس بیش بہا، شاندار اور تاریخی ثقافت کا قدر داں ہو‘‘۔
اور یہ کہ ’’اُنہی کے لیے ہم نوجوانوں کی موسیقی پیش کرتے ہیں، اور ایسے عنوان منتخب کرتے ہیں جن میں نوجوان خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں اور سننا چاہیں گے‘‘۔