اسرائیل کے سابق وزیراعظم ایہود اولمرٹ رشوت لینے اور انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کے الزامات کے تحت 19 ماہ کی سزا کاٹنے پیر کو جیل پہنچے۔
وہ پہلے اسرائیلی وزیراعظم ہیں جنہیں جیل بھیجا گیا۔ ان کی قید کئی سال سے جاری قانونی جنگ کے بعد عمل میں آئی۔ انہیں 2006 میں اس وقت استعفیٰ دینا پڑا تھا جب اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات کا اہم آخری دور چل رہا تھا۔
اولمرٹ نے وسطی اسرائیل میں واقع ماسیاہو جیل میں آنے سے پہلے ایک ویڈیو جاری کی جس میں اسرائیلی عوام سے آخری وقت پر درخواست کی کہ وہ ان کی امن کے لیے کوششوں کو یاد رکھیں۔ انہوں نے وڈیو میں کسی بھی غلط کام سے انکار کیا۔
جیل آنے سے ایک دن قبل ان کے گھر پر بنائی گئی ساڑھے تین منٹ کی وڈیو میں اولمرٹ کو یہ کہتے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ ان کے اور ان کے اہلخانہ کے لیے ’’تکلیف دہ اور عجیب‘‘ وقت ہے اور وہ ’’بھاری‘‘ قیمت ادا کر رہے ہیں مگر انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس سزا کو قبول کر رہے ہیں کیونکہ ’’کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں۔‘‘
’’اس وقت میرے لیے یہ اہم ہے کہ میں اپنے اوپر لگائے گئے بدعنوانی کے تمام الزامات سے انکار کرتا ہوں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی عوام جب پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو شاید وہ ان پر لگائے گئے الزامات اور سات سالہ قانونی جنگ کو ’’متوازن اور ناقدانہ‘‘ طور پر دیکھیں۔
ستر سالہ اولمرٹ کو مارچ 2014 میں ایک وسیع البنیاد مقدمے میں سزا سنائی گئی تھی جس میں ان پر یروشلم میں زمین کے ایک متنازع منصوبے کی تشہیر کے لیے رشوت لینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
یہ الزامات اس وقت سے متعلق ہیں جب 2006 میں وزیر اعظم بننے سے کئی سال قبل وہ یروشلم کے میئر اور وزیر تجارت تھے۔
اس کیس میں ابتدائی طور پر انہیں چھ سال کی سزا سنائی گئی مگر اسرائیل کی سپریم کورٹ نے کم جرم کی سزا برقرار رکھتے ہوئے ان کی سزا 18 ماہ کر دی۔ اس سزا میں ایک ماہ کا اضافہ اس الزام کے تحت کیا گیا کہ انہوں نے اپنے ایک رازدار پر کئی مقدمات میں اپنے خلاف گواہی دینے سے روکنے کے لیے دباؤ ڈالا تھا۔