امریکہ نے اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقے میں یہودی بستیوں کی تعمیر میں تیزی لانے کے ایک توسیعی منصوبے پر اسے تنبہہ کی ہے۔ امریکہ کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب بین الاقوامی سطح پر بھی اس معاملے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے بدھ کو کہا کہ "بستیاں بسانے کے کام میں قابل ذکر توسیع دو ریاستی حل کے قابل عمل ہونے سے متعلق ایک بڑھتا ہوا اور سنجیدہ خطرہ ہے"۔
اسرائیل کی ایک نیوز ویب سائٹ اور بستیاں بسانے کے عمل پر نظر رکھنے والے ایک گروپ 'پیس ناؤ' کے مطابق اسرائیلی فوج کی ایک منصوبہ بندی کی کمیٹی کی طرف سے حال ہی میں منظور ہونے والے ایک منصوبے کا انکشاف کیا گیا ہے جس کے تحت 463 رہاشی یونٹ تعمیر کیے جائیں گے۔
رپورٹ کے مطابق ان میں سے 51 رہائشی یونٹ نئے تعمیر کیے جائیں گے جبکہ 1980 کی دہائی میں بغیر کسی اجازت کے تعمیر ہونے والے 178 یونٹس کی پرانی تاریخوں سے منظوری دی گئی ہے۔
جوش ارنسٹ نے کہا کہ "ہمیں خاص طور پر ان غیر قانونی رہائشی تعمیرات کی پرانی تاریخوں سے منظوری دینے کے معاملے پر سخت تشویش ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کے بارے میں ہمارے تحفظات نہایت واضح ہیں"۔
قبل ازیں رواں ہفتے مشرق وسطیٰ کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے نکولے ملاڈینوف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ اسرائیل کی طرف سے بستیوں کی تعمیرات کو توسیع دینے کا عمل فلسطین میں قیام امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
تاہم اسرائیل نے ان خدشات کو مسترد کر دیا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے ترجمان ڈیوڈ کیز نے کہا کہ یہ بیانات "تاریخ کو مسخ کر رہے ہیں۔"
ڈیوڈ کیز نے مغربی کنارے کا قدیمی نام استعمال کرتے ہوئے کہا کہ "یہودی ہزاروں سال سے یروشلم، یہودا و سامرا میں موجود ہیں اور ان کی وہاں موجودگی امن کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے"۔
امریکہ نے اسرائیل اور فلسطینوں پر زور دیا ہے کہ اعتماد کے فروغ کے لیے "بامعنی اقدامات کریں"۔ تاہم اسرائیل اس کی بجائے ہزاروں کی تعداد میں نئے مکانوں کی تعمیر کے منصوبے کو فروغ دے رہا ہے۔