پاکستان میں غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل کے متعدد واقعات کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ ایسے اقدام اسلام کی تعلیمات کے منافی ہیں۔ کونسل کی طرف سے منگل کو جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ اسلام کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے۔
تاہم کونسل نے اپنے بیان میں پسندی کی شادی کرنے پر عورتوں کو قتل کی مذمت نہیں کی بلکہ کہا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی عزیز یا عزیزہ کو کسی اخلاقی جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے دیکھے تو ’’مشتعل ہو جانا یا غیرت کا مظاہرہ کرنا طبعی بات ہے، مگر فواحشات و منکرات کو حرام قرار دینے کے باوجود اسلام اس بات کی اجازت نہین دیتا کہ کوئی شخص ماورائے عدالت از خود بداخلاقی کے مجرم کو سزا دے۔‘‘
اس سے قبل مذہبی جماعتوں کی ایک تنظیم ’سنی اتحاد کونسل‘ نے ایک فتویٰ جاری کیا تھا کہ جس میں غیرت کے نام پر قتل کی واضح مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ایسے اقدام اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے۔
چالیس علما کی طرف سے جاری ہونے والے فتوے میں کہا گیا کہ اسلام بالغ عورتوں کو اپنی مرضی سے شادی کی اجازت دیتا ہے اور ایسا کرنے پر عورتوں کو قتل کرنا اسلامی احکامات کے منافی ہے۔
فتوے میں یہ بھی کہا گیا کہ معاشرے میں رائج عزت اور غیرت کے خودساختہ معیارات جہالت، گمراہی اور کفر پر مبنی ہیں۔
یہ فتویٰ اتوار کو دیر گئے ایسے وقت جاری کیا گیا جب حال ہی میں لاہور میں ایک خاتون نے مبینہ طور پر اپنی 16 سالہ بیٹی کو پسند کی شادی کرنے پر تشدد کرنے کے بعد جلا کر ہلاک کر دیا تھا۔
اس سے قبل مری میں ایک خاتون کو رشتہ سے انکار پر جلایا گیا جب کہ گزشتہ ماہ ایبٹ آباد کے ایک گاؤں میں ایک لڑکی کو اس لیے جلایا گیا کیونکہ مبینہ طور پر اس نے اپنی سہیلی کی پسند کی شادی میں مدد کی تھی۔
فتوے میں ان تمام واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا تھا ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشرہ انحطاط کا شکار ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے کمیشن آن دی سٹیٹس آف ویمن کی چیئر پرسن فوزیہ وقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس فتوے کا خیر مقدم کیا مگر کہا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے مؤثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔
’’جب تک تعزیرات پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل جیسے اقدام کو ناقابل مصالحت اور ناقابل ضمانت اور سنگین جرم قرار نہیں دیا جائے گا، تب تک لوگ ان فتووں کے باوجود ایسے قدم اٹھاتے رہیں گے اور لڑکیاں جلتی رہیں گی۔‘‘
سنی اتحاد کونسل کے علما نے بھی اپنے فتوے میں عورتوں کے حقوق کے تحفظ اور ان کے قتل کے واقعات کو روکنے کے لیے مؤثر قانون سازی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے جرائم کو ناقابل معافی، ناقابل مصالحت اور ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے۔
ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق 2015 میں پاکستان میں لگ بھگ 1,100 عورتوں کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
تاہم تنظیم کا کہنا ہے کہ قتل ہونے والی عورتوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ ایسے بہت سے واقعات کا اندارج نہیں کرایا جاتا۔
ایسے جرائم کے مرتکب اکثر افراد قصاص اور دیت کے قانون کے تحت سزا سے اس لیے بچ جاتے ہیں کیونکہ لڑکی کے ورثہ قاتلوں کو معاف کر دیتے ہیں جو عموماً اس کے اپنے رشتہ دار ہی ہوتے ہیں۔
تاہم اسلامی نظریاتی کونسل کا کہنا تھا ’’اس وقت ملک میں اس مسئلہ سے متعلق رائج قانون شریعت کے مطابق ہے، اس بارے میں مزید قانون سازی یا ترمیم کی ضرورت نہیں۔‘‘
اس سے قبل بھی اسلامی نظریاتی کونسل عورتوں سے متعلق متنازع سفارشات پیش کر چکی ہے۔
گزشتہ ماہ کونسل نے کہا تھا کہ اسلام عورتوں کو ہلکی مارپیٹ کی اجازت دیتا ہے جس پر انسانی حقوق کمیشن نے کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ عزت نفس رکھنے والے ہر شخص کو اس قسم کی تجویز کی کھل کر مذمت کرنی چاہیئے۔
کمیشن نے یہ بھی کہا تھا کہ کونسل کی طرف سے عورتوں کو تابع رکھنے اور معاشرے میں برابری کا مقام حاصل کرنے سے روکنے کی کوششوں پر اب تک سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا۔