اسرائیل حماس کے لیڈر ہنیہ کی موت کا مکمل ذمہ دار ہے: او آئی سی

جدہ میں ہونے والے او آئی سی اجلاس کے کے کچھ شرکاء۔ 7 اگست 2024

  • اسرائیل حماس کے لیڈر ہنیہ کی موت کامکمل ذمہ دار ہے: او آئی سی۔
  • اعلامیہ سعودی عرب میں قائم اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ایک غیر معمولی اجلاس کے اختتام پر سامنے آیا ہے۔
  • امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا کہ امریکہ او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے متعدد ملکوں کے ساتھ رابطے میں رہا ہے۔
  • امریکہ کا خیال ہے کہ اس بارے میں ایک "وسیع اتفاق رائے" موجود ہے کہ " کشیدگی میں اضافے سے خطے کے مسائل میں لا محالہ اضافہ ہو گا": ملر
  • بدھ کا اجلاس ایسا پہلا نہیں ہے کہ جب بلاک نے غزہ جنگ کا جائزہ لیا ہے۔
  • بدھ کے او آئی سی کے اجلاس کے لیے، "ہم مذمت اور مذمت سے زیادہ کی توقع نہیں کر سکتے: سعودی سیاسی تجزیہ کار محمد بن صالح الحربی

ویب ڈیسک:بدھ کے روز اعلیٰ مسلم سفارت کاروں نے کہا کہ اسرائیل ایران میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے "گھناؤنے" قتل کا "مکمل طور پر ذمہ دار" ہے اور خبردار کیا کہ اس سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔

یہ اعلامیہ سعودی عرب میں قائم اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ایک غیر معمولی اجلاس کے اختتام پر سامنے آیا ہے جس کے انعقاد کی درخواست ایران نے بھی کی تھی جو ہنیہ پر حملے کا بدلہ لینے کے عزم کا اظہار کر کے مشرق وسطیٰ کو ،پریشان کن صورت حال میں مبتلا کر چکا ہے۔

اسرائیل نے ہنیہ کی موت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے، جو قطر میں مقیم تھے اور غزہ کی پٹی میں جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت میں ایک اہم کردار ادا کرتے تھے۔

بلاک نے سعودی ساحلی شہر جدہ میں او آئی سی کے ہیڈ کوارٹر میں وزرائے خارجہ کے جمع ہونے کے بعد، ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ وہ "اس گھناؤنے حملے کا مکمل طور پر ذمہ دار، غیر قانونی قابض طاقت، اسرائیل کو ٹھہراتا ہے"، جسے اس نے ایران کے اقتدار اعلیٰ کی "سنگین خلاف ورزی" قرار دیا۔

پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار او آئی سی کے اجلاس میں شریک ہیں۔ 7 اگست 2024

سعودی حکومت کے ایک بیان کے مطابق سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ جنہوں نے بدھ تک اس حملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا، اسے ایسے ہی الفاظ میں بیان کیا۔

افتتاحی تقریب کے دوران، او آئی سی کی موجودہ چیئر گیمبیا کے وزیر خارجہ مامداؤ تنگارا نے کہا کہ ہنیہ کی موت سے مشرق وسطیٰ میں جاری خونریزی میں مزید شدت اور پھیلاؤ کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے ۔

تنگارا نے کہا، " اس گھناؤنی کارروائی سے صرف موجودہ کشیدگیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے جو ممکنہ طور پر ایک وسیع تر تنازع کا باعث بن سکتی ہیں جس کی لپیٹ میں پورا خطہ آ سکتا ہے۔"

او آئی سی کے اجلاس میں ایران کی نمائندگی قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری نے کی۔ 7 اگست 2024

انہوں نے فلسطینی لوگوں کے لیے انصاف اور انسانی حقوق کی ہنگامی نوعیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ ہنئیہ کی ہلاکت سے فلسطینی نصب العین ختم نہیں ہو جائے گا بلکہ یہ مزید پھیلے گا۔

انہوں نےمزید کہا کہ ان اصولوں کے احترام کے گہرے مضمرات ہوتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی سے اتنے ہی اہم نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریاستوں کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت بین الاقوامی امن کے قیام کے بنیادی اصول ہیں۔

اقوام متحدہ کے لیے فلسطین کے سفیر ریاض منصور (دائیں) اور اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی آرگنائزیشن اسلامک کوآپریشن کے اجلاس میں شریک ہیں۔ 7 اگست 2024

"ان اصولوں کا احترام کرنے کے گہرے مضمرات ہیں اور ان کی خلاف ورزی یکساں طور پر اہم نتائج کی حامل ہے۔"

کشیدگی بڑھنے کے خدشات

ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری نے تہران کے موقف کا اعادہ کیا کہ اسے جواب دینے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ،" اس وقت، اسرائیلی حکومت کی جارحیت اور خلاف ورزیوں کے خلاف (اقوام متحدہ) کی سلامتی کونسل کی طرف سے کوئی مناسب اقدام نہ ہونے کی صورت میں، اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس اس جارحیت کے خلاف جائز دفاع کے اپنے بنیادی حق کو استعمال کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ "

سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ ولید الخریجی اجلاس میں شریک ہیں۔ 7 اگست 2024

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے بدھ کے روز امید ظاہر کی کہ "ایران کے ساتھ تعلقات رکھنے والے تمام فریق ایران پر اسی طرح اثر انداز ہوں گے، جس طرح ہم اسرائیل کی حکومت پر یہ زور دیتے رہے ہیں کہ وہ تنازع کو بڑھانے کے لیے کوئی اقدام نہ کریں "۔

ملر نے کہا کہ امریکہ او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کرنے والے متعدد ملکوں کے ساتھ رابطے میں رہا ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس بارے میں ایک "وسیع اتفاق رائے" موجود ہے کہ " کشیدگی میں اضافے سے خطے کے مسائل میں لا محالہ اضافہ ہو گا"۔

حماس کی لبنانی اتحادی حزب اللہ نے بھی چند گھنٹے قبل بیروت میں اسرائیلی حملے میں ہنیہ اور اس کے فوجی کمانڈر فواد شکر کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا عہد کیا ہے۔

SEE ALSO: مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی بڑھنا ایران کے مفاد میں نہیں؛ امریکہ کا انتباہ

'مذمت اور مذمت'

بدھ کا اجلاس ایسا پہلا نہیں ہے کہ جب بلاک نے غزہ جنگ کا جائزہ لیا ہے۔

غزہ میں شہریوں کی ہلاکتوں کی مذمت میں باقاعدہ بیانات جاری کرنے کے علاوہ، او آئی سی کے رہنما نومبر میں عرب لیگ کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ ایک سربراہی اجلاس کے لیے جمع ہوئے، جس میں غزہ میں اسرائیلی افواج کے "وحشیانہ" اقدامات کی مذمت کی گئی۔

سعودی سیاسی تجزیہ کار محمد بن صالح الحربی نے اے ایف پی کو بتایا کہ بدھ کے او آئی سی کے اجلاس کے لیے، "ہم مذمت اور مذمت سے زیادہ کی توقع نہیں کر سکتے۔"

SEE ALSO: اسماعیل ہنیہ کو شارٹ رینج میزائل سے نشانہ بنایا گیا، ایرانی فوج کا دعویٰ

غزہ جنگ کا آغاز حماس کے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر دہشت گرد حملوں سے ہوا تھا۔ اسرائیلی سرکاری اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق، اس آپریشن کے نتیجے میں 1,198 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔

فلسطینی عسکریت پسندوں نے 251 یرغمالیوں کو یرغمال بنایا، جن میں سے 111 اب بھی غزہ میں قید ہیں، جن میں 39 اسرائیلی فوج کے مطابق ہلاک ہو چکے ہیں۔

حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، غزہ میں اسرائیل کی انتقامی فوجی مہم میں کم از کم 39,677 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جس میں شہری اور عسکریت پسندوں کی ہلاکتوں کی تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔

(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات اے ایف پی سے لی گئی ہیں)