اسلام آباد: اسکول کم، مدارس زیادہ

فائل فوٹو

حکومت کا موقف رہا ہے کہ وہ مدارس میں پڑھنے والوں کو قومی دھارے میں لانے اور اُن کے نصاب کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں اسکولوں کے مقابلے میں مدارس کی تعداد زیادہ ہونے پر ماہرین تعلیم کی طرف سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ماہر تعلیم اے ایچ نیئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ یہ صورت حال یقیناً باعث تشویش ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے حکومت کو کردار ادا کرنا ہو گا۔

اُن کے بقول بہت سے مدارس سرکاری زمین پر تعمیر کیے گئے، جو کہ حکومت کی عمل داری کے لیے ایک چینلج ہے۔

’’یہ جو کہتے ہیں کہ مدرسے زیادہ ہو گئے ہیں، مجھے اس پر کوئی تعجب نہیں ہوا ہے۔۔۔۔ اس حققیت سے ہم شہری نہیں (نمٹ سکتے)، اس کا سامنا حکومت کر سکتی ہے۔‘‘

گزشتہ ہفتے سامنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کی انتظامیہ نے وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ہدایت پر ایک سروے کروایا، تاکہ مدارس کی تعداد معلوم کی جا سکے۔

رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ اسلام آباد میں 374 مدارس ہیں لیکن اُن میں کئی ایک ایسے ہیں جن کا باقاعدہ اندارج ہی نہیں ہے۔

جب کہ دوسری جانب اسلام آباد میں اسکولوں کی تعداد 348 بتائی گئی ہے۔

لیکن اس میں 43 ہائیر سینکڈری اسکولوں کو شامل نہیں کیا گیا کیوں کہ عموماً ’ہائیر سینکڈری یا اعلیٰ ثانوی تعلیم‘ کے اداروں کو کالجوں میں شامل کیا جاتا ہے۔

ایک اور ماہر تعلیم قبلہ ایاز کہتے ہیں کہ مدارس میں زیر تعلیم طالب علم اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مزید ایسے ادارے قائم کرتے ہیں، اور اُن کے بقول حکام کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

’’جب مدرسے قائم ہوتے ہیں تو مدرسوں کے جو فارغ التحصیل ہیں، اُن کو عام اداروں میں ملازمتیں تو نہیں ملتیں تو وہ مزید مساجد اور مدارس تعمیر کرواتے ہیں۔‘‘

حکومت کا موقف رہا ہے کہ وہ مدارس میں پڑھنے والوں کو قومی دھارے میں لانے اور اُن کے نصاب کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

اگرچہ رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ گزشتہ چار سالوں میں اسلام آباد میں نئے اسکول تو نہیں بنے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں اسلام آباد کے اسکولوں کو بہتر بنانے کے لیے خاطر خواہ انتظامات کیے گئے ہیں، جن کی نگرانی خود وزیراعظم نواز شریف کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے اوائل میں جاری کردہ ’پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹسٹک‘ برائے سال 2015 اور 2016 نامی رپورٹ کے مطابق ملک میں اب بھی دو کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جو تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔

نئی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان میں پرائمری سطح کے اسکولوں میں سے 21 فیصد اسکول ایسے ہیں جن میں صرف ایک استاد تعینات ہے جب کہ 14 فیصد اسکول محض ایک کمرے کی عمارت پر مشتمل ہیں۔

تعلیم کے شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ پاکستان کو تعلیم کے شعبے میں اہداف کے حصول کے لیے تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرنا ہو گا۔