اسلام آباد: مونال ریسٹورنٹ سیل کرنے اور نیوی گولف کورس کو تحویل میں لینے کا حکم

عدالت نے ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا نیشنل پارک کی آٹھ ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ نیشنل پارک کا ایریا وفاقی حکومت کی ملکیت سمجھا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کو مارگلہ کی پہاڑیوں پر قائم مونال ریسٹورنٹ کو سیل کرنے اور نیوی گولف کورس کو تحویل میں لینے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا نیشنل پارک کی آٹھ ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیر قانونی قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اراضی نیشنل پارک کا حصہ ہے جسے وفاقی حکومت کی ملکیت سمجھا جائے۔

منگل کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تجاوزات کےخلاف کیس کی سماعت میں سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری دفاع اور چیئرمین کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) عدالت میں پیش ہوئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیشنل پارک کے حوالے سے متفرق درخواستیں دائر کی گئی تھیں جنہیں ایک جگہ اکٹھا کر کے مارگلہ ہلز تجاوزات کیس کا نام دیا گیا۔

اس میں ایک درخواست مونال ریسٹورنٹ کی طرف سے بھی دائر کی گئی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ریسٹورنٹ کی سی ڈی اے کے ساتھ لیز ختم ہونے کے بعد ملٹری ڈائریکٹوریٹ آف ویٹرنری فارمز نے اس زمین پر کو اپنی ملکیت ظاہر کی تھی۔ مونال ریسٹورنٹ اپنی لیز جاری رکھنا چاہتا تھا جس کے لیے انہوں نے عدالت میں درخواست دائر کی۔

اس کے علاوہ ایک شخص کی طرف سے ڈیفنس کمپلیکس کے قریب دیواروں کی تعمیر کی خلاف درخواست دائر کی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک خط جھگیوں میں مقیم افراد کی طرف سے بھی لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ یہاں بیشتر غیر قانونی آبادیوں کو تحفظ دیا جاتا ہے البتہ ہمارے گھروں کو گرا دیا جاتا ہے۔ اس پر عدالت نے خط کو درخواست میں تبدیل کرتے ہوئے اسی کیس میں شامل کردیا تھا۔

وزارتِ دفاع کا اس حوالے سے مؤقف تھا کہ انہیں 1910میں یہ زمین گھوڑوں کی خوراک اور گھاس کے لیے الاٹ کی گئی تھی۔

عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 1962 کے آرڈیننس اور اسلام آباد کے دارالحکومت بننے کے بعد اس علاقے کی تمام زمین اسلام آباد کی انتظامیہ کو دی جا چکی ہے لہٰذا آٹھ ہزار ایکڑ زمین ملٹری کو نہیں دی جا سکتی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ ماحولیات سے متعلق قوانین کا آپ کو معلوم ہے؟ آپ نے نیوی سیلنگ کلب کے فیصلے پر بھی عمل نہیں کیا جس میں ریاست کی زمین پر تجاوز کیا گیا۔

چیف جسٹس نے سیکریٹری داخلہ کو کہا کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ حیرت انگیز ہے۔ عدالت آپ کو بلا کر بتاتی ہے۔ فیصلے دیتی ہے۔ اسلام آباد میں لاقانونیت ہے۔ یہ عدالت بار بار فیصلے دے رہی ہے اور آپ کو بتا رہی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی آرمڈ فورسز کے تین سیکٹر بن گئے ہیں۔ آرمڈ فورسز کو کسی صورت متنازع نہیں ہونا چاہیے۔ یہ مفادِ عامہ میں نہیں۔

انہوں نے کہا کہ مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے ایریا میں کوئی سرگرمی نہیں ہو سکتی۔ یہ زمین وفاقی حکومت کی ہے۔ یہاں سے کوئی گھاس بھی نہیں کاٹ سکتا۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ملٹری فارمز کو کس قانون کے تحت آٹھ ہزار ایکڑ زمین دی گئی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس زمین کی اونرشپ وفاقی حکومت کے پاس ہی رہے گی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے مؤقف کی مخالفت کر رہے ہیں؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تمام مسلح افواج کو وزارتِ دفاع کنٹرول کرتی ہے اور سیکریٹری دفاع یہاں موجود ہیں۔ آپ نے یقینی بنانا ہے کہ کوئی ایسی چیز نہ ہو کہ بعد میں شرمندگی ہو۔ پاکستان بحریہ نے تجاوزات کر کے گولف کورس بنایا۔ یہ بات مناسب نہیں۔ عدالت چاہتی ہے کہ عوام کی نظر میں آرمڈ فورسز کی عزت ہو۔ لاقانونیت ہو گی تو صرف اشرافیہ کو فائدہ پہنچتا ہے۔ آپ نے خود تسلیم کیا کہ گولف کورس غیر قانونی ہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکریٹری دفاع کو ہدایت کی کہ پاکستان نیوی گولف کورس کو سیل کر کے تحقیقات کریں اور گولف کورس کی زمین کو آج ہی سی ڈی اے کے حوالے کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے نیوی سیلنگ کلب کو گرانے کے احکامات دے دیے ہیں۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے راول ڈیم کے قریب قائم پاکستان نیوی سیلنگ کلب کو تین ہفتے میں گرانے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے اس زمین پر پاکستان نیوی کا قبضہ ناجائز قرار دیتے ہوئے سی ڈے اے کو زمین کا قبضہ حاصل کرنے کا حکم دیا تھا۔

مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی زمین پر تنازع

چیئرمین سی ڈی اے عامر احمد علی نے عدالت کو بتایا کہ حکومتِ پنجاب بھی کچھ زمینوں پر دعویٰ کرتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد میں 1960 کے آرڈیننس کے بعد 1400 مربع میل کے علاقے میں تمام زمین سی ڈی اے کی ہے۔ عدالت اپنے فیصلے میں تمام چیزوں کی وضاحت کرے گی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ نیشنل پارک کی زمین کی حد بندی کی نشان دہی کون کرے گا؟

اس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ اس تمام زمین کی نشان دہی ڈسٹرکٹ کلکٹر کرے گا اور اس کام میں سروے آف پاکستان اور ڈپٹی کمشنر آفس معاونت کریں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریاست کی رٹ کیوں کمزور ہوئی ہے؟ اشرافیہ کی وجہ سے آج صورتِ حال یہ ہے کہ عام آدمی نیشنل پارک میں نہیں گھس سکتا۔

سیکریٹری دفاع نے کہا کہ دیہات کی طرف سے بھی تعمیرات اور تجاوزات ہو رہی ہیں۔

اس پر چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ ہر ادارے نے کہیں نہ کہیں تجاوزات کر رکھی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے تو کوئی تجاوز نہیں کیا۔ اگر ایسا ہے تو اِدھر سے شروع کریں۔

چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ ماضی میں اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں ترمیم اور تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ قانون جیسا بھی ہو اس پر عمل درآمد ہونا ضروری ہے۔

اس پر عدالت نے کہا کہ جب ادارے تجاوزات سے ہٹ جائیں گے تو کسی اور کی بھی ہمت نہیں ہو گی۔

عامر احمد علی نے کہا کہ آج کابینہ کے سامنے بھی یہ نکتہ رکھا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سب کے سر شرم سے جھکنے چاہئیں کہ یونان کے شخص نے آ کر ماحول کے تحفظ پر کام کیا۔ فورسز کے تین سیکٹرز میں بھی تمام قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ کیا عمل ہو رہا ہے؟ ایئر فورس نے جتنی تعمیرات کیں، کیا ان کے لیے سی ڈی اے سے منظوری لی گئی تھی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ ان کے سیکیورٹی کے حوالے سے کچھ تحفظات ہوں۔ سیکریٹری دفاع موجود ہیں۔ ان کے تحفظات سن لیں اور قانون پر سختی سے عمل درآمد کرائیں۔

عدالت نے مارگلہ نیشنل پارک میں موجود مونال ریسٹورنٹ کے حوالے سے سوال کیا کہ مونال کا کیا اسٹیٹس ہے؟ وہ کیسے تعمیر ہو سکتا تھا؟ وہ تو وہاں بننا ہی نہیں چاہیے تھا۔

چیف جسٹس نے حکم دیا کہ مونال کی لیز ختم ہو چکی ہے تو اسے سیل کیا جائے۔

عدالت نے انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کو مارگلہ ہلز نیشنل پارک میں تعمیرات کے سبب نقصان کا تخمینہ لگا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی جب کہ چیف کمشنر اسلام آباد کو آج ہی مونال کو سیل کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے آج ہی سی ڈی اے کو نیوی گولف کورس کا قبضہ لینے کا بھی حکم دیتے ہوئے سیکریٹری دفاع کو نیوی گولف کورس کی تجاوزات کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا حکم دیا۔

عدالت نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کے حدود کی نشان دہی جلد مکمل کرنے کا حکم دیتے ہوئے ملٹری ڈائریکٹوریٹ فارمز کا نیشنل پارک کی آٹھ ہزار ایکڑ اراضی پر دعویٰ بھی غیر قانونی قرار دے دیا اور کہا کہ اس آٹھ ہزار ایکٹر اراضی کو نیشنل پارک کا علاقہ اور وفاقی حکومت کی ملکیت سمجھا جائے۔

اسلام آباد میں مختلف زمینوں پر کئی اداروں کی طرف سے ماضی میں دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔

اسلام آباد کی مارگلہ کی پہاڑیوں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ زمین ملٹری ڈائریکٹوریٹ آف فارمز کی زمین ہے، جو ماضی میں فوج کو گھوڑوں کی چراگاہ کے لیے دی گئی تھی۔

تاہم عدالت نے مارگلہ ہلز نیشنل پارک کی آٹھ ہزار ایکڑ زمین کو وفاقی حکومت کی ملکیت قرار دیا ہے۔