اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملک کے وزیرِ خارجہ اور حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کو اثاثے چھپانے کا الزام ثابت ہونے پر نااہل قرار دے دیا ہے۔
ہائی کورٹ نے خواجہ آصف کو آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ تاحیات نااہل ہوگئے ہیں اور آئندہ کبھی انتخابات نہیں لڑ سکیں گے۔
تاہم انہیں ہائی کورٹ کے اس فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہے اور خواجہ آصف نے فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔
وزیرِ خارجہ خواجہ آصف کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دینے کی درخواست تحریکِ انصاف کے رہنما عثمان ڈار نے 11 اگست 2017ء کو دائر کی تھی جس کا فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی لارجر بینچ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد محفوظ کرلیا تھا۔
درخواست میں خواجہ آصف نے الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات کی ایک کمپنی میں اپنی ملازمت کے معاہدے اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ کی تفصیلات انتخابی گوشواروں میں ظاہر نہیں کیں۔
جمعرات کی دوپہر مختصر فیصلہ سناتے ہوئے بینچ کے سربراہ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عثمان ڈار کی درخواست منظور کرلی گئی ہے اور خواجہ آصف کو 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیا جارہا ہے۔
عدالت نے رجسٹرار آفس کو فیصلے کی مصدقہ نقل الیکشن کمیشن کو ارسال کرنے کی ہدایت بھی کی ہے تاکہ الیکشن کمیشن خواجہ آصف کی قومی اسمبلی کی رکنیت ختم کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کرسکے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کا تحریری فیصلہ 35 صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خواجہ آصف قومی اسمبلی کے حلقہ این اے – 110 سیالکوٹ سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہونے کے اہل نہیں تھے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت کو منتخب نمائندوں کو نااہل کرنے کے لیے عدالتی اختیارات استعمال کرنا اچھا نہیں لگتا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی قوتوں کو اپنے تنازعات سیاسی فورم پر حل کرنے چاہئیں۔ سیاسی معاملات عدالتوں میں آنے سے سائلین کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ فیڈریشن کے اتحاد علامت اور عزت اور تکریم کی حق دار ہے۔
فیصلہ سنائے جانے کے بعد عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے درخواست گزار عثمان ڈار نے کہا کہ ان کی پانچ سال کی محنت رنگ لے آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ اپنی کامیابی کا کریڈٹ عمران خان کو دیتے ہیں۔ خواجہ آصف کو کہا تھا کہ میں عمران خان کا سپاہی ہوں۔ یہ وہی خواجہ آصف ہے جس نے میرے لیڈر کی پارلیمنٹ میں توہین کی۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیرِ اعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر اپنے ردِعمل میں کہا ہے کہ عوام اب خواجہ آصف کے سائے کو بھی ووٹ دیں گے۔
اپنے ایک ٹوئٹ میں مریم نواز نے کہا ہے، "جس کا ووٹ کے میدان میں مقابلہ نہیں کر سکتے اس کو فکسڈ میچ میں نااہل کرا دو مگر یاد رکھو عوام اب خواجہ آصف کے سائے کو بھی ووٹ دے گی۔"
تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے عدالت کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ علی بابا کا ایک اور چور انصاف کی دیوی نے اچک لیا۔ کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے۔ سینئر وزرا سارے ہی ایک جیسے ڈاکو ہیں۔
خواجہ محمد آصف نے 2013ء کے عام انتخابات میں درخواست گزار عثمان ڈار کو 21 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی جو سیالکوٹ سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 110 سے تحریکِ انصاف کے امیدوار تھے۔
عثمان ڈار نے اپنی پٹیشن میں دعویٰ کیا تھا کہ خواجہ محمد آصف 2011ء سے متحدہ عرب امارات کی کمپنی 'آئی ایم ای سی ایل' کے ساتھ خصوصی مشیر کے طور پر وابستہ ہیں۔
پٹیشن میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ خواجہ محمد آصف 'آئی ایم ای سی ایل' کے کُل وقتی ملازم ہیں اور انہیں ملازمت کے معاہدے کے مطابق ماہانہ 50 ہزار درہم تنخواہ جاری ہوتی ہے۔
پٹیشن میں تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دینے کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔
پٹیشن میں مزید کہا گیا تھا کہ خواجہ محمد آصف نے یہ تنخواہ وصول کی جو ان کے لیے قابلِ قبول اثاثہ ہے۔ تاہم انہوں نے یہ تفصیلات 2013ء کے عام انتخابات کے دوران قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 110 کے لیے جمع کرائے گئے کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر نہیں کیں۔
پٹیشنر نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حال ہی میں خواجہ محمد آصف کے اقامہ (ملازمت کا اجازت نامہ) اور تنخواہ کی تفصیلات کے بارے میں علم ہوا ہے جس پر خواجہ آصف کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔
پٹیشن میں نشاندہی کی گئی تھی کہ خواجہ محمد آصف کے اقامے کی 29 جون 2017ء کو تجدید کی گئی اور یہ 28 جون 2019ء تک قابل استعمال ہے جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ خواجہ محمد آصف نجی کمپنی کے مستقل ملازم ہیں اور یہ پاکستان کے آئین کے تحت اٹھائے گئے ان کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔
خواجہ آصف کے وکیل نے اپنے آخری دلائل میں تسلیم کیا تھا کہ ان کے موکل پہلے دبئی میں بینک میں ملازمت کرتے تھے لیکن وہ دبئی میں فل ٹائم نہیں بلکہ ایڈوائزر کے طور پر ملازم تھے۔