داعش کا مقامی دہشت گردوں سے 'گٹھ جوڑ' شدید خطرہ

فائل فوٹو

پاکستان کے شہری علاقوں میں 2017ء کے دوران اگرچہ دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی ہے تاہم افغان سرحد سے متصل ملک کے قبائلی علاقوں میں ایسے واقعات میں 2016ء کے مقابلے میں گزشتہ سال نمایاں اضافہ ہوا ہے جس کی ایک وجہ سرحد پار شدت پسند گرو پ داعش ہے جو پاکستانی شدت پسندوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث رہا ہے۔

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کی صورت حال کے بارے میں کام کرنے والے ایک غیر سرکاری ادارے فاٹا ریسرچ سینٹر نے حال ہی میں جاری ہونے والی ایک سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ سال قبائلی علاقوں میںدہشت گردی کے واقعات میں 16 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیااور اسی عرصے میںجانی نقصان میں بھی37فیصد اضافہ ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2017ء میں قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے 153 واقعات ہوئے جن میں سے 48 فیصد واقعات میں سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا جبکہ 46 فیصد واقعات کا نشانہ عام شہری بنے جب کے باقی کے 5 فیصد واقعات میں امن لشکر کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔

’فاٹا ریسرچ سینٹر‘سے وابستہ سلامتی کے اُمور کے تجزیہ کار عرفان الدین نے اتوار کووائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ گزشتہ سال قبائلی علاقوں میں متعدد شدت پسند گروپ دہشت گردی کے واقعات میں سرگرم رہےہیں۔

" 2017ء میں تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار، داعش اور دیگر کئی گروپ فاٹا میں سرگرم رہے ہیں لیکن 2018 میں قبائلی اور دیگر علاقوں کے لیے جو سب سے بڑا خطرہ ہے جو ہم خیال کرتے ہیں وہ داعش ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سرحد پار ان کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ سال پاکستان کے قبائلی علاقوں کرم ایجنسی ، شمالی وزیرستان اور خیبرایجنسی سے متصل افغان علاقے میں شدت پسند گروپ داعش اپنے محفوظ ٹھکانے بنانے میں سرگرم رہا ہے۔

عرفان الدین نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ داعش بعض پاکستان شدت پسند گروپوں کے ساتھ مل کر ملک کے قبائلی علاقوں میں اپنے آپ کو منظم کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔

" جو پاکستان شدت پسند سرحد پار علاقوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں تو ان کے ساتھ ان (داعش) کےتعاون میں اضافہ ہو سکتا ہے اور فاٹا کےاندر سے بھی شدت پسند ان کی صفوں میں شامل ہوسکتےہیں تو اس وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ اس کی وجہ سے پاکستان میں خاص طور پر قبائلی علاقوں میں آنے والے وقت میں شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ "

پاکستانی اورافغان عہدیدار پاک افغان سرحد کے آرپار شدت پسند گروپ داعش کی موجودگی سے متعلق اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور سلامتی کے امور کے مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا خطرہہے جس سےاسلام آباد اور کابل کے باہمی تعاون سے کے ذریعے نمٹا جا سکتا ہے۔

پاکستانی حکام ملک میں ’داعش‘ کی منظم موجودگی کو مستردکرتے ہیں تاہم حالیہ برسوں میں ایسی اطلاعات بھی سامنے آتی رہتی ہیں کہ ملک کے بعض علاقوں میں انٹلی جنس معلومات کی بنیاد پر ہونے والی کارروائیوں میں ’داعش‘ کے جنگجوؤں کو گرفتار کرنے یا اُنھیں مارنے جانے کا بتایا جاتا ہے۔