اثاثہ جات ریفرنس میں اسحاق ڈار پر فردِ جرم عائد

وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار احتساب عدالت میں پیشی کے لیے آرہے ہیں

وزیرِ خزانہ نے صحت جرم سے انکار کیا جس کے بعد عدالت نے استغاثہ کے گواہوں کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا ہے۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنس میں فردِ جرم عائد کردی ہے۔

وزیرِ خزانہ نے صحت جرم سے انکار کیا جس کے بعد عدالت نے استغاثہ کے گواہوں کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا ہے۔

بدھ کو نیب ریفرنس کی سماعت کے موقع پر اسحاق ڈار احتساب عدالت نمبر ایک کے جج محمد بشیر کے روبرو پیش ہوئے تو انہیں کٹہرے میں طلب کیا گیا اور فردِ جرم عائد کرنے کی کارروائی کا آغاز ہوا۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے اور منی لانڈرنگ سے متعلق چارج شیٹ کے نکات پڑھ کر سنائے۔ وفاقی وزیرِ خزانہ نے صحتِ جرم سے انکار کیا اور عدالت کو بتایا کہ وہ بے گناہ ہیں۔

اسحاق ڈار نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ ان کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت رکھتےہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ احتساب عدالت میں الزامات کا دفاع کریں گے، اپنی بے گناہی ثابت کریں گے اور ثابت کریں گے کہ تمام اثاثے جائز طریقے سے بنائے۔

فردِ جرم عائد ہونے کے بعد اسحاق ڈار کے خلاف ٹرائل کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے۔ آئندہ سماعت پر استغاثہ کے گواہان بیانات ریکارڈ کرائیں گے۔

اسحاق ڈار نے عدالت میں حاضری یقینی بنانے کے لیے عدالتی حکم پر 50 لاکھ کے مچلکے بھی جمع کرائے۔اسحاق ڈار نے عدالت سے حاضری سے استثنیٰ دینے کی بھی درخواست بھی دی جس کی نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی۔

عدالت نے سماعت چار اکتوبر تک ملتوی کردی ہے جب کہ جج نے کہا کہ حاضری سے استثنیٰ دینے کی اسحاق ڈار کی درخواست کا فیصلہ بھی آئندہ سماعت پر سنایا جائے گا۔

اس سے قبل بدھ کو وفاقی وزیر خزانہ احتساب عدالت پہنچے تو عدالت کا دروازہ بند ہونے کے باعث انہیں باہر ہی انتظار کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ واپس اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے۔

تاہم کچھ دیر بعد وزیرِ خزانہ اس عقبی دروازے سے عدالت میں داخل ہوئےجو ججز عدالت میں داخلے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ کی پیشی کے موقع پر جوڈیشل کمپلیکس اور اس کے اطراف سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔

سخت سکیورٹی کے باعث صحافیوں اور سائلین کو عدالت کے باہر روک لیا گیا جب کہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل اور اسپیشل پراسیکیوٹر کوبھی روکا گیا تاہم انہیں تھوڑی دیر بعد جانے کی اجازت دے دی گئی۔

پولیس کی جانب سے وکلااور صحافیوں کو عدالت میں داخلے کی اجازت نہ ملنے پر عدالت کے باہر شدید بدنظمی ہوئی اور بعض وکلا عدالت کا گیٹ پھلانگ کر احاطہ عدالت میں داخل ہوگئے۔

دوران سماعت صحافیوں کو بھی کمرہ عدالت میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی گئی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس میں الزامات کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا تھا کہ اسحاق ڈار کے اثاثوں میں بہت کم عرصے کے دوران 91 گنا اضافہ ہوا اور وہ 90 لاکھ روپے سے 83 کروڑ 10 لاکھ روپے تک جا پہنچے۔

سپریم کورٹ نے 28 جولائی کو پاناما پیپرز کیس میں اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اسحاق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی ہےجو آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے۔ اس دفعہ کے تحت الزام ثابت ہونے پر 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔