گھر والوں نے مجھے آج تک قبول نہیں کیا: ارحا پریشے

ارحا پریشے

’’میں بچپن ہی سے اپنی جنس کے بارے میں تذبذب کا شکار رہی ہوں۔ میں دوسروں کو دیکھتی تھی اور سوچتی تھی کہ میں ان جیسی نہیں ہوں۔ میں خود کو عورت محسوس کرتی تھی لیکن عورت نہیں تھی۔ میں خود کو غلط ثابت کرنے کے لیے لڑکوں کے ساتھ گھومنے پھرنے جاتی، لیکن اچھا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ مجھے 18 سال کی عمر میں انٹرنیٹ کے ذریعے معلوم ہوا کہ میں کون ہوں، میں کیا ہوں۔ ‘‘

یہ الفاظ ہیں سکھر سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ ارحا پریشے کے۔ جو ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سرگرم کارکن ہیں ۔ان دنوں وہ چار دیگر ٹرانس جینڈر خواتین کے ساتھ امریکہ کے دورے پر ہیں۔ انھیں 'ایڈوکیٹس آف یوتھ آرگنائزیشن' نے امریکہ آنے کی دعوت دی تھی۔

اس دورے کا مقصد پاکستان میں ٹرانس جینڈرز سے متعلق قانون پر خیالات کا اظہار کرنا ہے۔ اس کے علاوہ وہ امریکہ میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے ملاقات کررہی ہیں تاکہ ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاسکیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

گھر والوں نے مجھے آج تک قبول نہیں کیا، ارحا پریشے

ارحا پریشے کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر خاتون ہونا بڑا المیہ ہے۔

’’ایک ٹرانس جینڈر لڑکی کی حیثیت سے میرے خاندان والوں نے مجھے ابھی تک قبول نہیں کیا۔ میں نے گھر والوں کو اپنے بارے میں ایک خط لکھا تھا کہ میں کیا ہوں اور کیا چاہتی ہوں۔ پاکستان میں خواجہ سرا کلچر واضح ہے۔ لیکن میں اس کلچر کا حصہ نہیں ہوں۔ پاکستان میں یہ بات سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہے کہ خواجہ سرا ایک کلچر ہے اور ٹرانس جینڈر جنس کی ایک شناخت ہے۔‘‘

پاکستان میں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کو تحفظ دینے کے قانون کی 2018 میں منظوری دی گئی تھی۔ اس کے تحت انھیں اپنی شناخت ’میل‘ یا ’فیمیل‘ ٹرانس جینڈر کے طور پر کروانے کا حق دیا گیا۔ ایسا کوئی بھی شخص 18 برس کی عمر کے بعد شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ڈرائیونگ لائسنس میں خود کو ’میل‘ یا ’فیمیل‘ ٹرانس جینڈر کے طور پر درج کروا سکتا ہے۔ جن افراد کو نادرا کے شناختی کارڈ جاری ہوچکے ہیں، انھیں بھی اپنا نام اور جنس اپنی شناخت کے مطابق تبدیل کرنے کی اجازت ہے۔ اس بارے میں ارحا کا کہنا ہے کہ پہلے ہمارے پاس شناخت کا اختیار نہیں تھا۔ قانون منظور ہونے کے بعد کافی لوگوں کو شناخت کا حق ملا ہے۔ اب وہ شناختی کارڈ حاصل کرسکتے ہیں۔ سب سے اچھی بات یہ ہے کہ اس قانون میں آپ کو اپنی شناخت خود بتانے کی اجازت ہے۔ اگر آپ خود کو ٹرانس جینڈر کہتے ہیں تو آپ سے کوئی میڈیکل کلیرنس نہیں مانگ سکتا۔

ارحا نے بتا یا کہ ان کے امریکہ آنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ یہاں ڈونر آرگنائزیشن سے ملاقات کی جائے تاکہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی بہتری کے لیے جن پروجیکٹس پر کام ہونا چاہیے، وہ آسانی سے کیے جا سکیں۔

ارحا اسلام آباد میں ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی معاشی خودمختاری کے لیے کام کرنے والے ادارے ’وجود‘ کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک کمپنی کے ساتھ بطور مارکیٹنگ آفیسر بھی کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے نسٹ یونیورسٹی سے اس سال گریجویشن کیا ہے۔ انھوں نے اب تک ساری تعلیم اسکالر شپ کے ذریعے ہی حاصل کی ہے۔