افغانستان میں داعش کی ریڈیو نشریات کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے

جلال آباد میں ایک دکاندار داعش کی نشریات سن رہا ہے

پہلے پہل افغان حکام کا کہنا تھا کہ وہ داعش کی نشریات بند کردیں گے اور اس ضمن میں انھوں نے کامیابی کا دعویٰ بھی کیا۔ لیکن اب صوبائی حکومت نے اعتراف کیا کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

افغانستان میں حکومت شدت پسند گروپ داعش کی ریڈیو نشریات کو بند کرنے میں ناکام رہی ہے اور اب یہ اطلاعات ہیں کہ ان نشریات کو دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔

داعش کے ایف ایم اسٹیشن کا نام "خلافت کی آواز" ہے یہ پاک افغان سرحد کے قریبی علاقوں سے نشریات جاری کر رہا ہے۔

رواں ہفتے ہی اس نے دری زبان میں پروگرام نشر کرنا شروع کیے ہیں اور یوں اب اس کی نشریات پشتو اور دری زبانوں میں سنی جا رہی ہیں۔

اس ریڈیو نشریات کا آغاز گزشتہ سال کیا گیا تھا جس کا مقصد ان علاقوں میں جہاں داعش کے شدت پسند موجود ہیں، دہشت کا پیغام پھیلانا تھا۔

یہ نشریات صوبہ ننگرہار کے مرکزی شہر جلال آباد اور پاکستان کے سرحدی علاقوں تک میں سنی جا رہی ہیں۔

جلال آباد کے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ یہ نشریات سن رہے ہیں کیونکہ یہ دوسرے اسٹیشنوں سے مختلف ہے۔

14 سالہ احمد اللہ بھی دیگر بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر یہ نشریات سن رہا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ "میں یہ ریڈیو گزشتہ تین ماہ سے سن رہا ہوں اس پر قرآنی آیات اور پیغمبر اسلام کی احادیث نشر ہوتی ہیں۔"

یہ نشریات صبح سات سے نو بجے تک پیش کی جاتی ہیں جس میں افغان حکومت اور طالبان کے خلاف پروپیگنڈہ، داعش میں شمولیت کی دعوت، سرکاری ملازمین کے لیے دھمکیاں اور داعش کے جنگجوؤں کے انٹرویوز بھی پیش کیے جاتے ہیں۔

جلال آباد میں ایک سماجی کارکن عبدالرحمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "میں نے چند لوگ دیکھے ہیں، پتا نہیں وہ مذاق کر رہے ہیں یا سنجیدہ ہیں، وہ یہ کہتے ہیں اگر یہ نشریات جاری رہیں تو وہ داعش میں شامل ہو جائیں گے۔"

پہلے پہل افغان حکام کا کہنا تھا کہ وہ داعش کی نشریات بند کر دیں گے اور اس ضمن میں انھوں نے کامیابی کا دعویٰ بھی کیا۔ لیکن اب صوبائی حکومت نے اعتراف کیا کہ وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ننگرہار کے گورنر کے ترجمان عطااللہ خوگیانی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "وہ (داعش کے شدت پسند) ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں، وہ ایک جگہ نہیں رکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اب تک اسے بند نہیں کر سکے ہیں۔"

لیکن عبدالرحمن اس توجیہ کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں "انھیں (حکومت) ہر صورت یہ بند کرنا چاہیے۔"

گزشتہ سال ہی داعش نے افغانستان کے مشرقی علاقوں میں اپنے قدم جمانا شروع کیے جہاں طالبان کے ساتھ ان کی جھڑپیں بھی ہوتی آ رہی ہیں۔