افغانستان میں ایک سرکاری عہدیدار نے دعویٰ کیا ہے کہ مشرقی صوبے ننگر ہار میں شدت پسند گروپ داعش کے عسکریت پسندوں نے ایک دینی مدرسے پر حملہ کر کے وہاں سے 16 افراد کو اغوا کر لیا ہے۔
مغویوں میں مدرسے کے 14 اساتذہ اور دو منتظمین بتائے جاتے ہیں۔
صوبائی محکمہ تعلیم کے ترجمان محمد آصف شنواری نے امریکی خبر رساں ایجنسی "ایسوسی ایٹڈ پریس" کو بتایا کہ تین مسلح افراد نے گزشتہ اختتام ہفتہ یہ حملہ کیا تھا۔
اس واقعے کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی تھی لیکن پولیس اور افغان حکام اس کا الزام علاقے میں سرگرم داعش کے شدت پسندوں پر عائد کرتے ہیں۔
دریں اثناء بین الاقوامی امدادی تنظیم "انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس" نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ ماہ شمالی افغانستان سے اغوا ہونے والا اس کا ایک غیر ملکی کارکن بحفاظت بازیاب ہو گیا ہے۔
جان کارلوس نامی اس ہسپانوی باشندے کو 19 دسمبر کو اپنی ٹیم کے ساتھ قندوز اور مزار شریف کے درمیان دوران سفر اغوا کیا گیا تھا۔
تنظیم کی افغانستان میں ایک عہدیدار مونیکا زنرلی کے مطابق کارلوس بحفاظت بازیابی کے بعد اپنی ٹیم میں شامل ہو گئے ہیں۔
تاہم انھوں نے اس بازیابی کی تفصیلات اور اغوا کے محرکات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
افغانستان میں حالیہ برسوں میں خاص طور پر غیر ملکی شہریوں کے اغوا کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اکثر اغوا کار ان افراد کی رہائی کے بدلے بھاری تاوان یا پھر حکومت سے اپنی شرائط ماننے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
گزشتہ اگست میں کابل میں امریکی یونیورسٹی کے دو غیرملکی پروفیسروں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ہی طالبان نے ان مغویوں کی ایک وڈیو جاری کی تھی۔ جن میں آسٹریلیا کے تعلق رکھنے والے ٹموتھی ویکس اور امریکی شہری کیون کنگ اپنی اپنی حکومتوں سے اپنی رہائی کے بدلے اغوا کاروں کے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے دکھائی دیے۔