شام: داعش کے خلاف قلم اٹھانے والی خاتون صحافی ہلاک

فائل

رقعیہ حسن نے تحریر کیا تھا، ’میں رقہ میں ہوں۔ مجھے قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ ہیش ٹیگ: آئی ایس آئی ایس نے مجھے گرفتار کیا ہے اور مجھے مارنا چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ وہ میرا گلہ کاٹنے کے درپے ہیں۔ میںٕ عزت دار ہوں۔ اذیت میں جینے سے بہتر ہے یہی ہو۔ بجائے اس کے کہ میں رہوں اور داعش اقتدار میں ہو‘

شام کے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ داعش کے شدت پسند گروپ نے پہلی مرتبہ ایک خاتون نامہ نگار کو قتل کر دیا ہے۔ صحافی خاتون داعش کے زیر تسلط خطے سے بغیر لگی لپٹی رپورٹنگ کیا کرتی تھیں۔

تیس برس کی رقعیہ حسن شام میں داعش کے مضبوط ٹھکانے، رقہ کے حالات پر طبع آزمائی کیا کرتی تھیں، جس علاقے میں انتہا پسند گروپ کے خلاف اتحاد کی جانب سے بھی آئے دِن فضائی کارروائیاں کی جاتی تھیں۔ اُن کی جانب سے فیس بک پر شائع ہونے والی خبریں نسان ابراہیم کے قلمی نام سے پوسٹ ہوا کرتی تھیں۔
حسن کی ہلاکت کی اصل تاریخ کا علم نہیں، لیکن اُنھوں نے جولائی 2015ء سے سماجی میڈیا پر اچانک لکھنا چھوڑ دیا تھا۔

اُن کی ہلاکت کی تصدیق اِسی ہفتے رقہ کے ایک گروپ نے بتائی جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اُنھیں خاموشی سے قتل کیا گیا۔
یہ گروپ شام میں کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں اطلاعات دیتا ہے۔

انسانی حقوق کے اس گروپ کے بانی ابو محمد نے اپنے ٹوئیٹ میں بتایا ہے کہ رقعیہ حسن نے آخری پیغام میں تحریر کیا تھا، ’میں رقہ میں ہوں۔ مجھے قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ ہیش ٹیگ: آئی ایس آئی ایس نے مجھے گرفتار کیا ہے اور مجھے مارنا چاہتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ وہ میرا گلہ کاٹنے کے درپے ہیں۔ میںٕ عزت دار ہوں۔ اذیت میں جینے سے بہتر ہے یہی ہو۔ بجائے اس کے کہ میں رہوں اور داعش اقتدار میں ہو‘۔

حسن نے حلب یونیورسٹی سے فلسفے کی تعلیم حاصل کی۔ اُنھوں نے غیر وابستہ اخباری نمائندہ کے طور پر کام کا آغاز کیا اور شام کے صدر بشار الأسد کی حکومت کے خلاف رپورٹنگ کی، جب رقہ میں ان کے خلاف سرکشی شروع ہوئی۔

جب داعش شہر میں داخل ہوا، اُنھوں نے شہر چھوڑنے سے انکار کیا اور پھر وہاں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کے بارے میں قلم اٹھایا۔