|
کراچی -- حکومت پاکستان ملک میں بجلی پیدا کرنے والے 100 سے زائد نجی بجلی گھروں (آئی پی پیز) کو نرخ کم کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ نجی بجلی گھروں میں بڑا نام 'لبرٹی پاور' نے رضاکارانہ طور پر نرخ کم کرنے کی پیش کش کی ہے۔ لیکن حکومت کو دیگر بجلی گھروں سے بھی اسی نوعیت کی پیش کش کا انتظار ہے۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت پر اس وقت دباؤ ہے کہ وہ ملک میں معاشی سرگرمیوں کو تیز کرنے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی کرے۔ جب کہ بعض ماہرینِ معیشت ان کوششوں کی کامیابی کی زیادہ امید نہیں رکھتے۔ لیکن ایسے میں سوال یہ ہے کہ پھر پاکستان میں توانائی کے شعبے کے مسائل کا حل کیا ہے؟
اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ حکومت کا اس بارے میں پلان کیا ہے اور وہ کیسے آئی پی پیز کو بجلی کے نرخ کم کرنے پر قائل کر سکتی ہے۔
حکومت بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے لیے کیا کر رہی ہے؟
وزیر توانائی سردار اویس لغاری نے وائس آف امریکہ کو گزشتہ ماہ دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ چاہے مقامی آئی پی پیز ہوں یا غیر ملکی، ان کے ساتھ باہمی رضامندی سے معاہدوں پر نظرِ ثانی کی جا رہی ہے اور اس ضمن میں فعال انداز میں پیش رفت جاری ہے۔ ان کے بقول آئندہ ایک دو ماہ میں آئی پی پیز کے معاملے پر قوم اچھی خبر سنے گی۔
اویس لغاری کے بقول ملک میں بجلی کی پیداواری قیمت زیادہ نہیں ہے بلکہ بجلی گھروں کا کرایہ اور اس کو قائم کرنے میں حاصل کیے گئے قرض کی واپسی فی یونٹ بجلی کو مہنگا بنا رہی ہے جو کہ عام آدمی کی آمدن کو متاثر کر رہی ہے اور لوگ بجلی کے بل ادا کرنے کے لیے اپنی جمع پونجی خرچ کرنے پر مجبور ہیں۔
کیا باقی آئی پی پیز بھی تیار ہو جائیں گے؟
'لبرٹی پاور' نے حکومت کو پیش کش کی ہے کہ وہ امریکی ڈالر کے بجائے پاکستانی روپوں میں بھی کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شہریار چشتی نے کہا تھا کہ پاکستان میں توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے صورتِ حال خراب ہو رہی ہے اور ملک میں صنعتی اور گھریلو صارفین کو سستی بجلی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بجلی کی فراہمی کو ممکن بنانا ہے اور ان کی کمپنی حکومت کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے کانٹریکٹ پر نظر ثانی سمیت دیگر تجاویز بھیج رہی ہے۔
بجلی کی پیداواری قیمت کم کرنے کے لیے مقامی گیس استعمال کرنے کی تجویز بھی دی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ آئی پی پیز سے کیے گئے تقریباً تمام ہی معاہدوں میں یہ شرط رکھی گئی تھی کہ انہیں ادائیگی امریکی ڈالر کے حساب سے کی جائے گی۔ جب کہ سرمایہ کاروں کو سود کی مد میں ادائیگی بھی بین الاقوامی اسٹینڈرڈ ریٹس کے تحت ہی کی جائے گی۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 100 سے زائد نجی بجلی گھر حکومت کو ایسی رعایتوں کے لیے تیار ہو جائیں گے؟
Your browser doesn’t support HTML5
'چینی تعاون سے لگائے گئے بجلی گھروں کے مالکان کو اب تک قائل نہیں کیا جا سکا'
پاکستان میں گزشتہ دہائی میں توانائی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لگائے گئے ایک درجن سے زائد بڑے منصوبے چین کے تعاون سے لگے۔
ان پر آنے والے اخراجات کی مجموعی رقم 16 ارب ڈالر کے قریب بنتی ہے۔ جب کہ حکومت کے مطابق ان میں سے سات اب بھی تکمیل کے مراحل میں ہیں۔
حکومت پاکستان، چینی حکومت سے ان قرضوں کو ری شیڈول کرنے سے متعلق کئی بار درخواست کر چکی ہے۔ لیکن ماہرین کے مطابق اب تک ایسا لگتا ہے کہ چینی حکام کی جانب سے اس پر کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔
ماہر توانائی عمار حبیب خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے چین سے توانائی کے لیے لیے جانے والے قرض سے متعلق معاملات اس وقت خراب ہوئے جب پاکستانی روپے کی قدر پچھلے دو تین برسوں میں بہت زیادہ گری اور روپیہ 160 سے گر کر 280 روپے فی ڈالر تک پہنچ گیا۔
ایسے میں پاکستان کے لیے روپے کی اس قدر گری ہوئی قدر میں ادائیگی بھونچال بنی ہوئی ہے۔
'توانائی کے شعبے میں مربوط پلاننگ کے فقدان کے باعث صورتِ حال خراب ہوئی'
کئی ماہرین توانائی کا یہ بھی خیال ہے کہ ملک میں بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو کیپیسیٹی پیمنٹس کا مسئلہ ضرورت سے زیادہ اچھالا گیا۔
ان کا کہنا ہے کہ صرف کپیسٹی پیمنٹ ہی کے باعث ملک میں بجلی مہنگی اور اس شعبے میں حکومت کو سرکلر ڈیبٹ (گردشی قرضوں) کا سامنا نہیں بلکہ اس مسئلے کے دیگر عوامل بھی ہیں جن پر جان بوجھ کر نظر نہیں ڈالی جاتی کیوں کہ اس کے ڈانڈے حکومت کی بیڈ گورننس سے جا ملتے ہیں۔
'اصل مسئلہ کیپیسٹی پیمنٹس کا نہیں بلکہ حکومتی ٹیکسز اور نقصانات کا ہے'
کراچی میں مقیم ماہر اقتصادیات خرم شہزاد کا کہنا ہے ملک میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ توانائی کی منصوبہ بندی میں پالیسی میں کوئی سمت اور ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔
ان کے بقول نجی بجلی گھروں کی صلاحیت کی ادائیگی یعنی کیپیسٹی پیمنٹ واقعی کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بجلی کے بلوں پر اصل مسئلہ 40 سے 45 فی صد اس رقم کا ہے جو بجلی کے ٹیکسوں کی صورت میں حکومت کی جانب سے عائد کیے گئے ہیں۔
اس کے ساتھ بجلی کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں ہونے والے نقصانات، چوری اور سسٹم کی ناکاریاں، ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے دیگر نقصانات وغیرہ کو بھی بجلی کے صارف سے وصول کیا جا رہا ہے۔
خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ حکومت خود آئی پی پیز میں 50 فی صد سے زیادہ براہ راست حصص رکھتی ہے۔ خاص طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت بننے والے بجلی گھروں میں حکومت کے بڑے شیئرز ہیں اور یوں حکومت بطور مالک، خود ہی زیادہ تر نجی بجلی گھروں کے کیپیسٹی پیمنٹس وصول بھی کر رہی ہے۔
ماہر توانائی نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ چینی کمپنیوں کو پاکستان ہی کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے مدعو کیا گیا تھا اور انہیں محفوظ منافع کی پیش کش کی گئی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ چینی سرمایہ کاروں نے اس وقت پاکستان کا رخ کیا جب پالیسی ناکامیوں کی وجہ سے زیادہ تر سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری سے انکار کر دیا تھا۔
خرم شہزاد کے مطابق توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ حکومت کی بہت بڑی نااہلی ہے۔ لیکن اس کے لیے اس کا بل صارفین سے وصول کیا جا رہا ہے اور اس کے باوجود اس میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کا کُل حجم اب ملک کے دفاعی بجٹ سے بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں روپے کی قدر میں بڑی کمی، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ زیادہ ہونے کے باعث ادائیگیوں پر بھی بہت بڑا اور منفی اثر پڑا ہے۔ جب کہ حکومت کی جانب سے بجلی گھروں کو چلانے کے لیے میرٹ آرڈر کی بہت کم پیروی کی جا رہی ہے کیوں کہ زیادہ مؤثر پلانٹس ملک کے جنوبی حصے میں ہیں۔
شمالی علاقوں میں ان پلانٹس کی اکثریت ہے جو ناکارہ ہیں۔ مزید یہ کہ پیک آور میں بجلی کی ڈیمانڈ، موسمی حالات اور دیگر عوامل بھی بجلی کی قیمتیں بڑھانے کا باعث بن رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر کسی کو اس صورتِ حال کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے تو یہ وہ حکومتیں اور پالیسی ساز لوگ ہیں جنہوں نے وقت کے ساتھ ساتھ ان پالیسیوں کو تبدیل کرنے یا ان میں ضروری ترامیم کرنے کی کوشش تک نہیں کی جب کہ ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں سرمایہ کاری کیے بغیر جنریشن کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتے رہے۔