داعش خراسان کا افغانستان میں 15 شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ  

2019 میں داعش کے ہتھیار ڈالنے والے جنگجو۔فائل فوٹو

  • جمعرات کو وسطی افغانستان میں شہریوں کا ایک گروپ حملے میں ہلاک ہوگیا۔ اسلامک اسٹیٹ کی مقامی شاخ نے ذمہ داری قبول کی ہے۔
  • افغانستان کی وزارت داخلہ نے تفصیل بتائے بغیر ہلاکتوں کی اطلاع دی تھی۔
  • ایک گمنام ذریعے نے بتایا کہ ہزارہ برادری کا ایک گروپ عراق میں کربلا سے واپس آنے والے زائرین کے استقبال کے لیے جمع ہوا تھا ۔
  • اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے ایک اہلکار نے اس ماہ خبردار کیا تھا کہ داعش خراسان یورپ کے لیے بیرونی دہشت گردی کا سب سے بڑا خطرہ ہے،
  • جو خدشات اٹھائے گئے ہیں ان کی پس پشت پراپیگنڈا کار فرما ہے ۔اور یہ کہ داعش افغانستان میں "نمایاں طور پر کمزور" ہو چکی ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد

افغانستان کی وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ مسلح افراد نے جمعرات کو وسطی افغانستان میں شہریوں کے ایک گروپ کو ایک حملے میں ہلاک کردیا ۔ وزارت کا کہنا ہے طالبان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے یہ صوبے دائی کنڈی میں شہریوں پر ہونے والا پہلا حملہ ہے۔ داعش نے جمعرات کے روز اپنے ٹیلی گرام چینل پر اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

داعش کے میڈیا ونگ، اعماق نے ایک بیان میں کہا، ’’وسطی افغانستان میں خلافت کے سپاہیوں کے حملے میں پندرہ شیعہ (مسلمان) ہلاک اور چھ زخمی ہو گئے۔‘‘ ا س نے فوری طور اپنے دعویٰ کے لیے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

طالبان کی وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی نے اے ایف پی کو بتایا تھاکہ "نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے،" انہوں نے مزید کہا کہ صوبہ دائی کنڈی میں ہونے والے حملے کے بارے میں مزید تفصیلات کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔

صوبے کے ایک ذریعے نے جس کی سیکورٹی وجوہات کی بنا پر شناخت نہیں نہیں کی گئی، اے ایف پی کو بتایا تھاکہ 14 افراد ہلاک اور کم از کم چار زخمی ہوئے ہیں۔

SEE ALSO: داعش-خراسان:کابل میں ہلاکت خیز دھماکے کی ذمہ داری اور بیان کردہ ہلاکتوں سے درجنوں زیادہ کا دعویٰ

ذریعے نے بتایا کہ لوگوں کا ایک گروپ عراق میں کربلا سے واپس آنے والے زائرین کے استقبال کے لیے جمع ہوا تھا۔

ذرائع کے مطابق، مقامی میڈیا ویب سائٹ طلوع نیوز نے ہلاکتوں کی تعداد 14 بتائی ہے۔

دائی کنڈی کے صوبائی دارالحکومت نیلی شہر کے ایک اسپتال کے عہدے دار نے بتایا کہ عملے کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ "انہیں مطلع کر دیا گیا ہے کہ وہ زخمیوں کو داخل کرنے اور علاج کے لیے تیار رہیں ۔"

داعش۔خراسان یا ISIS-K اسلامک اسٹیٹ تنظیم کی افغانستان میں شاخ ہے ۔ خراسان سے مراد وہ تاریخی خطہ ہے جس میں ایران ،افغانستان اور وسطی ایشیا کے کچھ حصے شامل تھے.

داعش خراسان تاریخی طور پر شیعوں کو نشانہ بناتا رہا ہے، لیکن وہ طالبان کے بھی حریف ہیں،جو ان کی طرح سنی عقیدے کے حامل ہیں۔

طالبان کی حکومت نے بار ہا اپنے ملک کو لاحق اس خطرے کی اہمیت کو گھٹا کر بیان کیا ہے۔

SEE ALSO: افغانستان میں داعش کی طاقت بڑھ رہی ہے: اقوام متحدہ کا انتباہ

2021 میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے افغانستان میں حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے، لیکن اسلامک اسٹیٹ کی علاقائی شاخ، داعش-خراسان سمیت متعدد مسلح گروپ بدستور ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

اس ماہ کے شروع میں اس گروپ نے افغان دارالحکومت میں ایک خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

گروپ نے یہ بھی کہا تھا کہ مئی میں افغانستان میں سیاحوں کو ہدف بنانے والے حملے کے پیچھے اس کا ہاتھ تھا جس میں تین غیر ملکیوں سمیت چھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اور مارچ میں، داعش نے ماسکو کے ایک کنسرٹ ہال پر حملے میں 145 افراد کو ہلاک کرکے اپنی وسیع تر صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا۔

SEE ALSO: داعش۔خراسان: ماسکو میں حملہ کرنے والوں کی تعریف، طالبان پر تنقید

اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی کے ایک اہلکار نے اس ماہ خبردار کیا تھا کہ داعش خراسان یورپ کے لیے بیرونی دہشت گردی کا سب سے بڑا خطرہ ہے، جس نے بقول انکے" گزشتہ چھ ماہ میں اپنی مالی اور لاجسٹک صلاحیتوں کو بہتر کیا ہے"۔

طالبان کی حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے جو خدشات اٹھائے گئے ہیں ان کا محرک پراپیگنڈا ہے ۔اور یہ کہ گروپ افغانستان میں "نمایاں طور پر کمزور" ہو چکا ہے۔

اس رپورٹ کا مواد رائٹرز اور اے ایف پی سے لیا گیا ہے.