مشرقِ وسطیٰ کے کئی اہم ممالک اور عالمی طاقتوں نے عراق کے شیعہ سیاست دان حیدر العبادی کی بطور وزیرِاعظم نامزدگی کی حمایت کردی ہے جسے موجودہ وزیرِاعظم نوری المالکی کے لیے ایک دھچکا قرار دیا جارہا ہے۔
حیدر العبادی کی نامزدگی کی حمایت کرنے والوں میں امریکہ کے علاوہ ایران اور سعودی عرب بھی شامل ہیں جو ماضی میں نوری المالکی کی سربراہی میں آٹھ سال چلنے والی عراقی حکومت کے اتحادی رہے ہیں۔
نوری المالکی مسلسل تیسری مدت کے لیے وزیرِاعظم بننے کے لیے کوشاں ہیں اور ا نہوں نے عراقی صدر کی جانب سے حیدر العبادی کو حکومت سازی کی دعوت دینے پر کڑی تنقید کی ہے۔
لیکن کرد اور سنی اقلیتوں کی کھلم کھلامخالفت اور خود شیعہ جماعتوں کے درمیان تفریق اور اختلافِ رائے نوری المالکی کے دوبارہ انتخاب کی راہ میں حائل ہے۔
المالکی کی سربراہی میں قائم شیعہ جماعتوں کا اتحاد پارلیمان میں سب سے زیادہ نشستیں رکھتا ہے لیکن حکومت سازی کے لیے درکار سادہ اکثریت سے محروم ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق منگل کو عراق کے نیم خود مختار کرد علاقے کے صدر مسعود برزانی نے بھی جناب عالدی کے تقرر کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔
امریکی نائب صدر جو بائیڈن کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے عراقی کردستان کے صدر نے کہا کہ وہ سنی جنگجووں اور شدت پسندوں کی جانب سے ملک کی سلامتی کو لاحق خطرے کے مقابلے کے لیے نامزد وزیرِاعظم کے ساتھ اشتراکِ عمل پر آمادہ ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے اپنے ایک بیان میں حیدر العبادی پر زور دیا ہے کہ وہ جلد از جلد اپنی کابینہ تشکیل دیں۔
آسٹریلیا کے دورے پر موجود جا ن کیری نے کہا ہے کہ عراق میں ایسی حکومت کا قیام ضروری ہے جو شیعوں، سنیوں، کردوں اور دیگر اقلیتوں کی نمائندہ ہو اور جس پر عراق کے عوام کو اعتماد ہو۔
امریکی وزیرِ خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں جناب عبادی کی حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
'نیٹو' کے سربراہ آندرے فوغ راسموسن نے بھی جناب عبادی کی نامزدگی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عراق میں تمام طبقوں کی نمائندہ حکومت کا قیام 'ریاستِ اسلامیہ (داعش)' کے جنگجووں کو شکست دینے کے لیے ضروری ہے۔
'نیٹو' سربراہ کے بقول 'داعش' صرف عراق ہی نہیں بلکہ پورے خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرہ ہے جسے شکست دینا ضروری ہے۔
نوری المالکی کے دورِ اقتدار میں ان کے ساتھ وفادار رہنے والی کئی شیعہ ملیشیاؤں اور فوجی کمانڈروں نے بھی نئے وزیرِاعظم کی حمایت کا اعلان کردیا ہے جس نے نوری المالکی کے اقتدار میں رہنے کی کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے۔