دارالحکومت بغداد کے انتہائی محفوظ علاقے ’’گرین زون‘‘ کے قریب ہوئے جن میں وزارت خارجہ کے باہر ہونے والے دو کار بم دھماکے بھی شامل ہیں
عراق کے دارالحکومت میں ہونے والے متعدد بم دھماکوں میں کم از کم 32 افراد ہلاک جب کہ 30 زخمی ہوئے۔
یہ دھماکے بدھ کے روز بغداد کے سخت پہرے والے ’گرین زون‘ علاقے کے قریب ہوئے، جن میں سے دو کار بم حملے تھے، جو وزارت خارجہ کے دفتر کے باہر واقع ہوئے۔
ایک خودکش بم حملہ آور نے ریستوراں والے علاقے میں ایک بم دھماکہ بھی کیا، جب کہ وسطی بغداد کے خلانی اسکوائر میں دوسرا بم حملہ ہوا۔
اسی علاقے میں ایک خودکش حملہ آور نے ایک ریستوران میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب کہ مرکزی بغداد میں خلانی اسکوائر میں بھی ایک بم دھماکا ہوا۔
فوری طور پر کسی نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن دہشت گردی کی ایسی منظم کارروائیوں کی ذمہ داری حکام اکثر القاعدہ اور اس سے منسلک شدت پسند گروپوں پر عائد کرتے ہیں۔
عراق میں 2008ء کے بعد شیعہ اور سنی مذہبی گروپوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے ملک میں بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔
ملک میں جاری پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے جنوری میں ایک ہزار اور گزشتہ سال نو ہزار افراد ہلا ک ہوگئے تھے۔
ایک طرف جہاں بغداد میں آئے روز بم دھماکے ہورہے ہیں وہیں حکومت مغربی صوبے النبار کے ان کچھ حصوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کارروائیاں کر رہی ہے جہاں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
2011ء میں عراق سے انخلا کے بعد سے امریکہ اس ملک کو لڑائی میں مدد کے لیے میزائل اور ڈرون طیارے فراہم کر رہا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی امورخارجہ کی کمیٹی کی بدھ کو ایک سماعت ہو رہی ہے جس میں عراق میں القاعدہ کے دوبارہ منظم ہونے، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے امن کو درپیش خطرات سے متعلق بحث کی جائے گی۔
یہ دھماکے بدھ کے روز بغداد کے سخت پہرے والے ’گرین زون‘ علاقے کے قریب ہوئے، جن میں سے دو کار بم حملے تھے، جو وزارت خارجہ کے دفتر کے باہر واقع ہوئے۔
ایک خودکش بم حملہ آور نے ریستوراں والے علاقے میں ایک بم دھماکہ بھی کیا، جب کہ وسطی بغداد کے خلانی اسکوائر میں دوسرا بم حملہ ہوا۔
اسی علاقے میں ایک خودکش حملہ آور نے ایک ریستوران میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا جب کہ مرکزی بغداد میں خلانی اسکوائر میں بھی ایک بم دھماکا ہوا۔
فوری طور پر کسی نے ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن دہشت گردی کی ایسی منظم کارروائیوں کی ذمہ داری حکام اکثر القاعدہ اور اس سے منسلک شدت پسند گروپوں پر عائد کرتے ہیں۔
عراق میں 2008ء کے بعد شیعہ اور سنی مذہبی گروپوں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے ملک میں بدامنی میں اضافہ ہوا ہے۔
ملک میں جاری پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے جنوری میں ایک ہزار اور گزشتہ سال نو ہزار افراد ہلا ک ہوگئے تھے۔
ایک طرف جہاں بغداد میں آئے روز بم دھماکے ہورہے ہیں وہیں حکومت مغربی صوبے النبار کے ان کچھ حصوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کارروائیاں کر رہی ہے جہاں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
2011ء میں عراق سے انخلا کے بعد سے امریکہ اس ملک کو لڑائی میں مدد کے لیے میزائل اور ڈرون طیارے فراہم کر رہا ہے۔
امریکی ایوان نمائندگان کی امورخارجہ کی کمیٹی کی بدھ کو ایک سماعت ہو رہی ہے جس میں عراق میں القاعدہ کے دوبارہ منظم ہونے، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے امن کو درپیش خطرات سے متعلق بحث کی جائے گی۔