زخمی مظاہرین کے علاج پرایرانی ڈاکٹروں کو دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سامنا

دائیں سے بائیں: ڈاکٹر شورش حیدری کو زخمی مظاہرین کی مدد کرنے کے الزام میں جیل میں رکھا گیا۔ ڈاکٹر محمد عدل طالب پر ان کے دفتر میں حملہ کیا گیا ، جب کہ ڈاکٹر آئیدا روستامی کا جوتہران کے مضافاتی علاقے میں زخمیوں کا علاج کرتی تھیں جب انتقال ہوا توان کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ 

ایران میں طبی عملے پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ کی سیکیورٹی فورسز کے حملوں میں زخمی ہونے یا ہلاک ہونے والوں کی وجوہات کے بارے میں جھوٹ بولیں۔ ایران میں ڈاکٹروں اور کارکنوں نے اے ایف پی کے مبصرین کی ٹیم کو بتایا کہ انہیں گرفتار کیا گیا، پوچھ گچھ کی گئی،مارا پیٹا گیا اور ایک طبی ماہر کو مبینہ طور پر زخمی مظاہرین کا خفیہ علاج کرنے پر ہلاک کر دیا گیا۔

ایران میں چار ماہ سے جاری مظاہروں کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کی سرکاری افواج طبی عملے کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

احتجاج کا آغاز 22 سالہ مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد ہوا تھا۔انہیں پولیس نے ریاست کے لباس کے متعلق مقرر کردہ ضابطوں کے مطابق درست طور پر سر نہ ڈھانپنے کے الزام میں پکڑا تھا۔

Your browser doesn’t support HTML5

حجاب پر گرفتار طالبہ کی ہلاکت، ایرانی خواتین احتجاجاً بال کاٹنے لگیں

سرگرم کارکنوں اور انسانی حقوق کے مبصرین نے اطلاع دی ہے کہ درجنوں ایرانی ڈاکٹروں کو گرفتار کیا گیا ہے ، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مغربی ایران کے کرد علاقے سے ہے۔

صوبہ کردستان سے تعلق رکھنے والے ایک فارماسسٹ شورش حیدری وہ پہلے طبی پیشہ ور ہیں جنہیں ایرانی فورسز نے حراست میں لیا تھا۔ انہیں 20 نومبر سے 5 دسمبر تک بوکان شہر میں زخمی مظاہرین کا علاج کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔

ایرانی ڈاکٹروں کے ساتھ رابطے میں رہنے والے ایرانی کارکنوں کے مطابق، ان میں سے سینکڑوں سے پوچھ گچھ بھی کی گئی اور دھمکی دی گئی کہ اگر انہوں نے زخمیوں کا خفیہ علاج کیا تو ان کے میڈیکل لائسنس منسوخ کر دیے جائیں گے۔

17 نومبر کو ڈاکٹر محمد عدل طالب نےیو ٹیوب پر ا پنی ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں ان کا چہرہ سوجا ہوا ہے اورر ہونٹوں سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ بتا تے ہیں کہ شمالی ایران کے ایک چھوٹے سے قصبے سومسارا میں زخمی مظاہرین کا علاج کرنے پر سیکیورٹی فورسز نے ان کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی اور ان کو زد و کوب کیا۔

اکتوبر 2022 میں تہران کے سینا اسپتال کے ایمرجنسی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر حسین کرمان پور کو اسپتال میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے فائر کیے جانے والے آنسو گیس کے کنستر کی تصویر پوسٹ کرنے پر برطرف کر دیا گیا تھا، جس میں لکھا تھا: "تاریخ سے انہوں نے یہ نہیں سیکھا کہ سخت ترین حکومتوں نے بھی کبھی کسی اسپتال کی محدود جگہ میں آنسو گیس کا استعمال نہیں کیا۔ لیکن انہوں نے ایساکیا. "

ڈاکٹروں کو دھمکیاں اور موت کے جعلی سرٹیفکیٹ

صنم (یہ ان کا اصلی نام نہیں) ایک ایرانی ڈاکٹر ہیں ۔ وہ جنوبی ایران کے ایک اسپتال میں کام کرتی ہیں، ایک ایسے شہر میں جہاں گزشتہ چار ماہ کے دوران بڑےمظاہرے ہوئے ہیں۔

’’جب سے احتجاج شروع ہوا، زخمیوں اور ہلاک ہونے والے مظاہرین کے ساتھ ساتھ دباؤ بھی آیا۔ سب سے پہلے، یہ صرف اسپتال کے ڈائریکٹر کے ذریعہ تھا. وہ خود ایمرجنسی روم میں آئے اور زخمی یا ہلاک ہونے والے مظاہرین سے شناختی کارڈ لیے اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ رابطہ کیا‘‘۔

انہوں نے ہمیں بتایا کہ ’’ہم گھر پر زخمی مظاہرین کا علاج نہیں کر سکتے، اور جب ہم اسپتال میں ان کا علاج کرتے ہیں تو ہمیں اپنے ڈیٹا بیس میں مظاہرین کے حقیقی نام درج کرنے ہوں گے۔‘‘

Your browser doesn’t support HTML5

ایران میں احتجاجی لہر، خواتین کے حقوق موضوعِ بحث

’’ تاہم، انہوں نے منظم طریقے سے رپورٹوں میں زخموں یا موت کی غلط وجہ دکھائی۔ زخمی مظاہرین کے لیے فارم میں دی گئی چوٹ کی عام جھوٹی وجوہات ، کار حادثات اور بلندی سے گرنا ہیں۔ ہلاک ہونے والے مظاہرین کے لیے موت کی ایسی جھوٹی وجوہات دی گئیں کہ ایسا 'جسم میں گھس جانےوالی چیزوں' کی وجہ سے ہوا، جو دراصل گولیاں تھیں۔

لیکن چند ہفتوں کے بعد، جیسے جیسے مظاہروں میں زخمی یا ہلاک ہونے والے مظاہرین کی تعداد میں اضافہ ہوا، انہوں نے اپنے طریقوں کو تبدیل کر دیا۔اسپتال کے سیکیورٹی عملے کی جگہ نئے لوگوں نے لے لی جو پاسداران انقلاب یا پاسداران انقلاب کی نیم فوجی شاخ بسیج کے ارکان کی طرح نظر آتے تھے ۔‘‘

سیکیورٹی فورسز کا اسپتالوں میں گشت

’’سیکیورٹی فورسز کے دو اہل کار ہمیشہ ہمارے اسپتال میں زخمی مظاہرین کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ وہ زخمی مظاہرین کی شناختی دستاویزات لےلیتے ہیں، وہ ان لوگوں کو گرفتار کرتے ہیں جو ان کی نظر میں ’’زیادہ اہم‘‘" یا ’’زیادہ مشکوک‘‘ہیں۔ اور وہ زخمی یا ہلاک ہونے والے مظاہرین کے اہل خانہ کو دھمکیاں دیتے ہیں۔‘‘

وہ خاندانوں کو زخمیوں یا موت کی ایسی جھوٹی وجوہات بتانے کے لیے مجبور کرتے ہیں جو انہوں نےفارم پر درج کی ہوتی ہیں۔ وہ ان سے کہتے ہیں کہ اگر وہ پریشانی میں پڑنانہیں چاہتے اور باقاعدہ تدفین کے لیےاپنے پیاروں کی لاش کو حاصل کرنے کے اہل ہونا چاہتے ہیں تو میڈیا سے بات نہ کریں یا سوشل میڈیا پر کچھ نہ کہیں۔‘‘

Your browser doesn’t support HTML5

ایران احتجاج: کیا اس بارایرانی حکومت خطرے میں ہے؟

یران میں 16 ستمبر سے 22 سالہ مہسا امینی کو پولیس کی جانب سے گرفتار کیے جانے اور مبینہ ہلاکت کے خلاف مظاہرے اور عام ہڑتالیں جاری ہیں، جس کی قیادت خواتین نے کی جنہوں نے اپنے حجاب پھاڑ دیے، اپنے بال کاٹ لیے اور ’’عورت، زندگی، آزادی‘‘ کا نعرہ لگایا۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق اب تک 19 ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور 480 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

یہ اسٹوری ایجنسی فرانس پریس کی معلومات پر مبنی ہے