ایران کے وزیرِ خارجہ نے امریکہ کے تین فوجی اہلکاروں کی اردن میں فوجی اڈے پر ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد صورتِ حال کے سیاسی حل پر زور دیا ہے۔ خطے کی کشیدہ صورتِ حال میں ایرانی مبصرین امریکہ کی جوابی فوجی کارروائی کے بارے میں بھی خبردار کر رہے ہیں۔
ایران کے مبصرین بڑی حد تک اس بات پر متفق ہیں کہ موجودہ کشیدگی میں بھی باقاعدہ جنگ نہیں ہو گی۔
شام اور عراق کے قریب اردن کے دور دراز صحرائی اڈے پر اتوار کو ہونے والے ڈرون حملے کا الزام ایران کے حمایت یافتہ شدت پسند گروہوں پر لگاتے ہوئے امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے انتہائی نتیجہ خیز ردِ عمل کے عزم کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ برس سات اکتوبر کو غزہ میں اسرائیل اور حماس کی جنگ شروع ہونے کے بعد خطے میں کسی بھی حملے میں یہ امریکہ کے فوجی اہلکاروں کی ہلاکت کا پہلا واقعہ تھا۔
امریکہ میں رواں برس صدارتی الیکشن بھی ہونے ہیں۔ انتخابی سال کے آغاز پر امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ بڑھاتا جا رہا ہے۔
یہ بھی جانیے
اردن حملے کے جواب کا فیصلہ کر لیا ہے: صدربائیڈناردن میں ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک،بائیڈن جوابی کارروائی کے لیے پرعزماردن: امریکی اڈے پر حملے کی مبینہ ذمے دار ’کتائب حزب اللہ‘ کتنی طاقت ور ہے؟ اردن میں دشمن ڈرون کو غلطی سے امریکی ڈرون سمجھا گیا: ابتدائی رپورٹسواشنگٹن اور تہران دونوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتے۔
تاہم بائیڈن کے انتباہ کے بعد ایران یہ اندازہ لگا رہا ہے کہ اس صورتِ حال میں اگلا قدم کیا ہو سکتا ہے۔
تہران سے شائع ہونے والے اخبار ’ہم میہن‘ میں ایران کے سیاسی تجزیہ کار احمد زید آبادی نے لکھا کہ اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بائیڈن ایرانی اہداف پر براہِ راست حملوں کا حکم دے سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ امریکہ کے کسی بھی حملے میں ممکنہ طور پر دوسرے ممالک میں ایران کی عسکری تنصیبات نشانہ بن سکتی ہیں۔
خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ایرانی ریال منگل کو بلیک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پانچ لاکھ 80 ہزار سے چھ لاکھ کی اب تک کی کم ترین سطح پر آ چکا ہے۔
اخبار ’ہم میہن‘ کو ایک اصلاح پسند اخبار قرار دیا جاتا ہے اس نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ امکانات بھی موجود ہیں کہ جو بائیڈن انتظامیہ ری پبلکن پارٹی کے سیاسی دباؤ کے سبب ایران کے اندر محدود لیکن اسٹریٹجک اہداف کو نشانہ بنائے کے لیے کارروائی کرے۔
SEE ALSO: اردن میں امریکی افواج پر حملہ: آنے والے دنوں میں کیا ہوگا؟ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے منگل کو کہا تھا کہ بحران کا حل سیاسی طور پر نکالنا چاہیے۔
سوشل میڈیا پر ایک بیان میں امیر عبد اللہیان نے کہا کہ اس جانب سفارت کاری فعال ہے۔
ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے والے ممالک چین اور روس نے کشیدگی میں کمی اور تحمل پر زور دیا ہے۔
بیجنگ نے مشرقِ وسطیٰ میں جوابی کارروائیوں کے سلسلے سے خبردار کیا ہے۔
اس رپرٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔