تہران میں پاکستان، افغانستان اور ایران کے صدور کی حالیہ ملاقات پر اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کہتا ہے کہ ایسے میں جب خطے سے امریکی فوجیں واپس بلائی جارہی ہیں، ایران کی طرف سے اِس خطے میں عظیم تر کردار ادا کرنے کی کوششیں اجاگر ہورہی ہیں، اور وہ اِن تینوں کلیدی امریکی اتحادیوں کے لیڈروں کے ساتھ تعلقات مضبوط کررہا ہے۔
ایرانی وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی کے بقول، تینوں صدور نے نیٹو افواج کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد کے امور پر تبادلہٴ خیال کیا اور تینوں تعاون اور رابطے بڑھانے میں بڑی صاف گوئی سے کام لے رہے ہیں، تاکہ یہ معاملات بلا رکاوٹ آگے بڑھانے کو یقینی بنایا جائے۔
اخبار کہتا ہے کہ امریکہ کے غنیم ایران کی طرف سے یہ پیش کش واشنگٹن اور اِن تینوں حکومتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے پس منظر میں آئی جنھیں اربوں ڈالر کی امریکی امداد مل چکی ہے۔
تہران سے روانگی سےقبل افغان صدر نے 15ماہ کے اندر افغانستان سے 33000امریکی فوجوں کی واپسی کے اعلان کا خیر مقدم کیا۔
امریکہ سال کے خاتمے تک عراق سے بھی 45000فوجی واپس نکالنے کا وعدہ کر چکا ہے۔
’وال اسٹریٹ جرنل ‘کہتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس اور امریکی محکمہٴ خارجہ نے تہران میں اِن تین صدور کی ملاقات پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔
اخبار نے نوٹ کیا ہے کہ پاکستان میں فوجی اور سویلین قیادت پر امریکہ کے خلاف اُس جذبے کی وجہ سے امریکہ سے قطع تعلق کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے جو پاکستان میں اسامہ بن لادن کو اپنی پناہ گاہ میں ہلاک کرنے کے بعد پیدا ہوا ہے۔
’واشنگٹن پوسٹ ‘نے افغانستان میں ایک نئے سیاسی بحران کی نشاندہی کی ہے جو ایک خصوصی تحقیقاتی عدالت کے اِس انکشاف سے پیدا ہوا ہے جِس کی وجہ سے افغان پارلیمنٹ کے 62ارکان نے پچھلے سال فراڈ کرکے انتخاب جیتا تھا اور اُس نے اُنھیں پارلیمنٹ سے برطرف کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ لیکن ، اِن ارکانِ پارلیمنٹ نے اپنی نشستوں پر ڈٹے رہنے کی قسم کھائی ہے، جب کہ ہمدرد ارکان ِپارلیمنٹ نے اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کے چھ ججوں کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ افغان حکومت کی تینوں شاخیں تعطل کا شکار ہیں اور بعض اہم ارکانِ پارلیمنٹ صدر کرزئی پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
یہ محاذ آرائی کئی ماہ سے پروان چڑھ رہی ہےاور جب کمیشن تحقیقات کر رہا تھا تو صدر کرزئی نے وزارت کے لیے نامزد کیے گئے کئی امیدواروں کو پارلیمنٹ میں جانچ پڑتال کے لیے پیش کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اِسے غیر ملکی سفارت کاروں نے تشویش کی نگاہ سے دیکھا ہے جن کی حکومتوں اور اداروں نے افغانستان میں سالہا سال کی جنگ اور سیاسی افراتفری کے بعد وہاں ٹھوس جمہوری بنیادوں پر ایک پیشہ ور حکومت کے قیام پر کروڑوں ڈالر خرچ کیے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ مسٹر کرزئی کی مقبولیت گِرتی جارہی ہے اور اُن کا لہجہ تُرش ہوتا جارہا ہے اور وہ الزام تراشیوں پر اُتر آئے ہیں۔
وہ مغربی اتحادیوں کو مطعُون کر رہے ہیں اور اپنے روایتی قبائلی نیٹ ورک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔
اخبار نے ناقدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ اُنھوں نے جانتے بھوجتے ہوئے پارلیمنٹ میں جھگڑا کھڑا کردیا تاکہ اُسے کمزور کیا جائے۔
اور’ شکاگو ٹربیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے کیلی فورنیا کے اُس قانو ن کو کالعدم قرار دیا ہے جِس کی رو سے تشدد آمیز وڈیو کھیل نابالغوں کو فروخت کرنے پر پابندی لگائی گئی تھی۔
اخبار کہتا ہے کہ وڈیو کھیلوں کی صنعت امریکہ میں سالانہ ساڑھے دس ارب ڈالر کی بِکری کرتی ہے۔امریکی گھروں میں سے دو تہائی میں کم از کم ایک ایسا فرد ضرورہے جو وڈیو کھیل کھیلتا ہے۔
آڈیو رپورٹ سنیئے: