جوہری ایندھن کی پیداوار کا حکم جاری

I

ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے اپنے ملک کے ایٹمی توانائی سے متعلق ادارے کو ہدایت کی ہے کہ وہ جوہری ایندھن کے حصول کے لیے افزودہ یورینیم کی پیداوار شروع کر دے

ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے اپنے ملک کے ایٹمی توانائی سے متعلق ادارے کو ہدایت کی ہے کہ وہ جوہری ایندھن کے حصول کے لیے افزودہ یورینیم کی پیداوار شروع کر دے۔

ایرانی صدر کے اس اعلان کے بعد اقوام متحدہ کا حمایت یافتہ وہ مجوزہ منصوبہ غیریقینی صورت حال کا شکار ہو گیا ہے جس کے تحت ایران یورینیم کو اندرون ملک افزودہ کرنے کی بجائے اسے ملک سے باہر بھیجے گا اور اس کے بدلے مغربی ممالک تہران میں ایٹمی تحقیق سے متعلق ری ایکٹر کے لیے اسے جوہری ایندھن فراہم کریں گےا۔

اتوار کو سرکاری ٹیلی ویژن پر نشر کی گئی اپنی تقریر میں ایرانی صدر نے جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ کو حکم دیا کہ وہ یورینیم کو 20 فیصد تک افزودہ کرنے کا کام شروع کردیں تاکہ اسے ایٹمی ری ایکٹر میں استعمال کیا جا سکے۔

ایک روز قبل امریکہ کے وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ایران اور مغربی ممالک جوہری ایندھن کے تبادلے کا معاہدہ طے پانے کے قریب پہنچ گئے ہیں۔

اس معاہدے کا بنیادی مقصد بین الاقوامی برادری کے ان خدشات کو دور کرنا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کے لیے یورینیم کی اعلیٰ سطح تک افزودگی کے حصول کی کوشش کر رہا ہے۔ تہران بدستور اس موقف پر قائم ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پراُمن مقاصد اور بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہے۔

اپنے خطاب میں ایرانی صدر نے انکشا ف کیا کہ ایران کے پاس یورینیم کو افزودہ کرنے کے لیے لیزر ٹیکنالوجی بھی موجود ہے۔ جوہری ایندھن کے تبادلے کے بین الاقوامی معاہدے میں تاخیر کا الزام انھوں نے مغربی ملکوں پر عائد کیا لیکن محمود احمدی نژاد نے کہا کہ اس مجوزہ سمجھوتے پر ان کا ملک بات چیت کے لیے اب بھی تیار ہے۔

ایران کے ساتھ اس معاہد ے پر ہونے والے مذاکرات میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان یعنی، امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین کے علاوہ جرمنی بھی شامل ہے اور اس گروپ کو P5+1کا نام دیا گیا ہے۔