ایران نے لڑاکا طیاروں کے لیے زیر زمین اڈّے کا افتتاح کر دیا

ایران کی فوج کے اعلیٰ عہدے دار جیٹ طیاروں کے تحفظ کے لیے بنائی گئی پناہ گاہ کا معائنہ کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

ایران کی فوج نے منگل کو لڑاکا طیاروں کے لیے اپنے پہلے زیر زمین اڈے کا افتتاح کیا ہے جن کا مقصد طیاروں کو دشمن کے بم حملوں سے محفوظ رکھنا ہے۔

ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا نے لڑاکا طیاروں کے لیے پہلے زیر زمین اڈے کے بارے میں خبر کے ساتھ اس کی تصویریں اور ویڈیوز کبھی جاری کیں ہیں جس میں ایک بڑی سرنگ میں طیارے کھڑے ہوئے دکھائے گئے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس زیر زمین اڈے کا نام عقاب 44 ہے اور اس میں ڈرونز سمیت ہر قسم کے لڑاکا اور بمبار طیاروں کو رکھنے کی سہولت موجود ہے۔

رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ ہوائی اڈا کہاں واقع ہے۔ تاہم سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ اسے پہاڑوں کے اندر سینکڑوں میٹر کی گہرائی میں تعمیر کیا گیا ہے اور یہ گہرائی ہدف بنانے والے بموں کے خلاف مؤثر تحفظ فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

گزشتہ سال مئی میں ایران کی فوج نے ملک کے مغرب میں ایک فضائی اڈے کے بارے میں بتایا تھا۔ جو ڈرونز سے بچاؤ کے لیے کوہِ زاغروس سلسلے کے نیچے بنایا گیا ہے۔

نئے زیر زمین اڈے کی نقاب کشائی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب ایک روز بعد ایرانی فضائیہ کا دن منایا جا رہا ہے۔ترقی کا یہ عمل 1979کے اسلامی انقلاب کی 44ویں سالگرہ کا حصہ ہے، جو ہفتے کے روز منائی جارہی ہے۔

ایرانی فضائیہ کے لڑاکا طیارے محو پروازہیں۔۔ فائل فوٹو

سرکاری میڈیا نے منگل کو ٹی وی پر دکھایا کہ ایران کی مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف میجر جنرل محمد باقری اور فوج کے کمانڈر انچیف میجر جنرل عبدالرحیم موسوی ، نئے اڈے کا معائنہ کر رہے ہیں۔

ارنا نے رپورٹ دی ہے کہ ’’عقاب 44‘‘ ملک کے مختلف علاقوں میں حالیہ برسوں میں بنائے گئے زیر زمین فضائی اڈوں میں سے ایک ہے جو ملکی فضائیہ کے لیےجنگی حکمت عملی کے تحت تعمیر کیے گئے ہیں

سرکاری میڈیا کے مطابق، ایران ممکنہ حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیےاس طرح کے لڑاکا طیارے بنا سکتا ہے جو امریکہ اور اسرائیل نے اپنی حالیہ فوجی مشقوں میں استعمال کیے تھے۔

ایران کے پاس زیادہ تر روسی مگ اور سخوئی لڑاکا طیارے ہیں جو سوویت دور کے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے پاس ایف سیون اور کچھ چینی طیارے بھی ہیں۔

اسلامی انقلاب سے پہلے کے امریکی ایف فور اور ایف فائیوں لڑاکا طیاروں کو بھی اس کے بیڑے میں شامل کر لیا گیا تھا۔

خبر کا کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔