ایرانی حکام نے ملک کی سب سے بڑی ای کامرس کمپنی کے دفاتر میں سے ایک کو بند کر کے اس کے خلاف عدالتی کارروائی شروع کر دی ہے ۔ ایران کے نیم سرکاری میڈیا کے مطابق، اس کمپنی نے خواتین کی ایسی آن لائن تصاویر شائع کی ہیں جن میں خواتین ملازمین کو سر پر اسکارف پہنے نہیں دکھایا گیا۔
یہ اقدام بظاہر ایک ہفتہ قبل شروع کی گئی نئی مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے جو اسلامی ڈریس کوڈ نافذ کرنے کے خلاف شروع ہونے والے بڑے احتجاجی مظاہروں کے تقریبا ایک سال بعد شروع کی گئی ہے۔ گزشتہ سال کے ان بڑے مظاہروں کے سامنے ایران کی اخلاقی پولیس نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔
Digikala نے ،جسے غیر رسمی طور پر، ایران کا ایمیزون کہا جاتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ایک کارپوریٹ اجتماع کی تصاویر پوسٹ کرکے قواعد کی خلاف ورزی کی, جس میں کئی خواتین ملازمین نے بغیرحجاب کے شرکت کی۔
SEE ALSO: ایرا ن: 2023 کے پہلے 6ماہ میں 354 افراد کو پھانسی دی گئی، آئی ایچ آرکمپنی کے چالیس ملین سے زیادہ فعال ماہانہ صارفین ہیں اور تین لاکھ سے زیادہ تاجر اس کے گاہک ہیں ملک کے متنازعہ جوہری پروگرام کے باعث عائد مغربی پابندیوں کی وجہ سے ایرانی بڑے پیمانے پر ایمیزون جیسے بین الاقوامی آن لائن پورٹلز تک رسائی سے محروم ہیں۔
ایران کے روزنامہ ہمشہری کی ویب سائٹ نے، جو دارالحکومت تہران کی میونسپلٹی سے وابستہ ہے، اتوار کو دیر گئے اطلاع دی کہ ڈیجیکالا کے ایک دفتر کو سیل کر دیا گیا ہے، لیکن اس کی ویب سائٹ معمول کے مطابق کام کر رہی ہے۔
ایران کی عدلیہ کی ویب سائٹ نے کہا کہ تصاویر کے سلسلے میں عدالتی مقدمات درج کیے گئے ہیں، تاہم اس بارے میں مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
گزشتہ موسم خزاں میں ایران کی اخلاقی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی موت کے بعد ملک گیر مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ واضح رہے کہ مہسا امینی کو بظاہر ایران کے ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرنے پر حراست میں لیا گیا تھا، جس کے مطابق عورتیں اور مردوں پر قدامت پسند لباس پہننا اور خواتین کا عوامی مقامات پر اپنے بالوں کو ڈھانپنا لازم ہے۔
مظاہرے، جن میں خواتین نے اہم کردار ادا کیا، تیزی سے ایران کی اس مذہبی حکومت کے خاتمے کے مطالبات تک پہنچ گئے ، جس نے 1979 کے انقلاب کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔ حکام نے شدید کریک ڈاؤن کے ساتھ جواب دیا تھا، جس میں 500 سے زائد مظاہرین ہلاک ہوئے اور تقریباً 20,000 کو حراست میں لے لیا گیا۔
اس سال کے آغاز میں مظاہرے بڑی حد تک ختم ہو گئے لیکن اب بھی عدم اطمینان کے بڑے پیمانے پر آثار موجود ہیں۔
مظاہرے شروع ہونے کے بعد، اخلاقی پولیس بڑی حد تک سڑکوں سے غائب ہوگئی تھی اور بہت سی خواتین نے ، خاص طور پر تہران اور دیگر شہروں میں، حجاب پہننا چھوڑ دیا تھا۔
لیکن ایران کے سرکاری عہدیداروں نے اس پورے بحران کے دوران یہ اصرار جاری رکھا کہ قواعد کبھی تبدیل نہیں ہوئے۔ ایران کے حکمران علما حجاب کو اسلامی جمہوریہ کا ایک اہم ستون سمجھتے ہیں اور مغربی طرز کے لباس کو زوال کی علامت سمجھتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے، ایران کی اخلاقی پولیس سڑکوں پر واپس آگئی ہے اور حکام نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو حجاب پہننے پر مجبور کرنے کے لیے ایک نئی مہم چلائی جا رہی ہے۔
(اس رپورٹ کے لئے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)