جنوب مشرقی ایرانی شہر زاہدان میں شیعوں کی ایک بڑی مسجد میں جمعرات کی شب ہونے والے دو خودکش بم دھماکوں میں کم ازکم 27 افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے۔
ان حملوں کا نشانہ بننے والوں میں عام نمازیوں کے علاوہ پاسدارانِ انقلاب کے ممبران بھی شامل ہیں۔ یہ کارروائی ایک ایسے وقت کی گئی جب اکثریتی شیعہ برادری حضرت امام حسین کی سالگرہ منانے میں مصروف تھی۔ اِس دن پاسدارنِ انقلاب کے ارکان کو اعزازات سے بھی نواز جاتا ہے۔
ایران مخالف سنی عسکری تنظیم جنداللہ نے پاکستان کی سرحد سے ملحقہ سیستان بلوچستان صوبے میں یہ حملے کرنے کا دعویٰ کیاہے۔ اپنی ویب سائٹ پر جاری بیان میں تنظیم نے کہا ہے کہ یہ کارروائی اُس نے اپنے سربراہ عبدالمالک ریگی کی موت کا بدلہ لینے کے لیے کی ہے جسے جون میں ایرانی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی۔
جنداللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ خودکش بم دھماکوں میں ریگی کے رشتہ داروں نے حصہ لیااور متنبہ کیا ہے کہ مزید ایسے حملے کیے جائیں گے۔
خیال رہے کہ ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان اس سنی عسکریت پسند تنظیم کا مضبوط گڑھ ہے جہاں شیعہ آبادی کے خلاف پہلے بھی ایسے حملے کیے جا چکے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نے ایران میں جمعرات کو ہونے والے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تشدد کے یہ واقعات دہشت گردی کے خلاف عالمی برادری کی جنگ کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔
سیستان بلوچستان میں گزشتہ اکتوبر میں ہونے والے اُس خودکش حملے کی ذمہ داری بھی جنداللہ نے قبول کی تھی جس میں پاسداران انقلاب کے کئی اعلیٰ فوجی کمانڈروں سمیت 57 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ایرانی حکام نے اس سال فروری میں تنظیم کے لیڈر عبدالمالک ریگی کو دبئی سے کرغزستان جانے والی ایک پرواز سے گرفتار کیا تھا اور ایک ایرانی عدالت نے اسے موت کی سزا سنائی تھی۔ ریگی کی سزائے موت پر عمل درآمد سے چند ہفتے قبل اس کے ایک چھوٹے بھائی، عبدالحمید ریگی کو بھی زاہدان میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔
ایران کا الزام ہے کہ ایرانی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے امریکہ جنداللہ کے عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ تہران کا کہنا ہے کہ جنداللہ نے ایران کی سرحد سے ملحقہ پاکستانی صوبے بلوچستان میں پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جنہیں ایرانی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعما ل کیا جاتا ہے۔
امریک، برطانیہ اور پاکستان تینوں ہی ایرانی الزامات کو رد کرتے ہیں۔