جبرالٹر کی سپریم کورٹ کی جانب سے ایران کا آئل ٹینکر چھوڑنے کے حکم کے بعد برطانیہ نے بھی ایران پر زور دیا ہے کہ وہ بھی اس کا بحری جہاز چھوڑ دے۔
ایران کے بحری حکام نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ ماہ برطانیہ کے زیر اثر جبرالٹر یعنی جبل الطارق کے پانیوں سے قبضے میں لیا گیا اس کا تیل بردار جہاز جبرالٹر کی سپریم کورٹ کے حکم پر چھوڑ دیا گیا ہے اور اب یہ جبرالٹر سے روانگی کے لیے تیار ہے۔
خیال رہے کہ ایران کا یہ آئل ٹینکر گزشتہ ماہ چار جولائی کو جبل الطارق کے پانیوں میں برطانیہ کی نیوی نے قبضے میں لے لیا تھا۔ برطانوی حکام نے الزام لگایا تھا کہ یہ تیل بردار جہاز 20 لاکھ بیرل خام تیل شام پہنچانا چاہتا تھا جس پر یورپی یونین اور برطانیہ نے تعزیرات عائد کر رکھی ہیں۔
ایران نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ تیل بردار جہاز کی منزل شام نہیں تھی۔
برطانیہ کے اس اقدام کے باعث مشرق وسطی میں پہلے سے ہی جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ ایران نے بھی ردعمل کے طور پر آبنائے ہرمز سے ایک برطانوی بحری جہاز قبضے میں لے لیا تھا۔
خبررساں ادارے فرانس 24 کے مطابق جبرالٹر کی سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایرانی آئل ٹینکر چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔
ایران کے پورٹس اور سمندری امور کے نائب سربراہ جلیل اسلامی کی جانب سے سرکاری ٹی وی پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ اب اس جہاز کا نام گریس ون سے تبدیل کر کے اس پر ایران کا پرچم نصب کیا جائے گا۔
جلیل اسلامی کا کہنا تھا کہ آئل ٹینکر کے مالک کی درخواست پر جہاز بحیرہ روم کی جانب رواں دواں ہو گا جب کہ اس کا نام اب 'آدریان دریا' ہو گا۔
جبرالٹر کی سپریم کورٹ نے جمعرات کو اس یقین دہانی پر ایرانی آتل ٹینکر چھوڑنے کا حکم دیا تھا کہ اب اس کی منزل شام یا کسی ایسے ملک کی جانب نہیں ہو گی جس پر یورپ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
ایران کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے مطابق آئل ٹینکر کی منزل شام نہیں تھی اور اگر ایسا تھا بھی تو کسی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
جبرالٹر کی حکومت کا کہنا ہے کہ ایران نے سپریم کورٹ میں یہ تحریری یقین دہانی کروائی ہے کہ یہ آئل ٹینکر اب شام نہیں جائے گا۔ ایران کے جمعے کو جاری کیے گے سیاسی بیان سے زیادہ تحریری یقین دہانی اہمیت رکھتی ہے۔
ایران کے آئل ٹینکر کی رہائی کے بعد برطانیہ نے ایران پر زور دیا ہے کہ وہ بھی اب اس کا بحری جہاز چھوڑ دے جو ایران نے ردعمل کے طور پر قبضے میں لیا تھا۔
مشرق وسطٰی میں کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب گزشتہ سال امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ ہو گئے تھے۔