ایران کی خطے میں 'عدم جارحیت' پر مبنی معاہدے کی پیشکش

فائل فوٹو

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ ایران خطے کے عرب اور خلیجی ممالک کے ساتھ متوازن تعلقات چاہتا ہے اور اس ضمن میں ایران نے 'عدم جارحیت' پر مبنی معاہدے کی بھی پیشکش کی ہے۔

عراق کے دارلحکومت بغداد میں اپنے ہم منصب محمد الحاکم کے ہمراہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے جواد ظریف کا کہنا تھا کہ ایران کے اوپر اگر اقتصادی اور فوجی جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ پوری قوت کے ساتھ ان کا مقابلہ کرے گا۔

عراق کے وزیر خارجہ نے ایران کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرواتے ہوئے کہا کہ عراق ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ تاہم وہ ایران اور امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی کم کرنے کے لئے بھی کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

عراق کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ عراق اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے امریکی اقدام کی تائید نہیں کرتا یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ان کے بقول عراق امریکہ کے یکطرفہ اقدامات کی حمایت نہیں کرتا بلکہ وہ اس معاملے پر ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔

'جوہری معاہدے پر ریفرنڈم کروانے کی تجویز'

ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکہ کے ساتھ جاری کشیدگی کے تناظر میں جوہری معاہدے سے متعلق ریفرنڈم کروانے کی تجویز دی ہے۔

بعض مبصرین کے مطابق جوہری معاہدے پر ریفرنڈم کروا کر ایرانی قیادت کو امریکہ کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے کا موقع میسر آسکتا ہے۔

خبررساں ادارے رائٹرز کے مطابق ایران کی اعلی قیادت امریکہ مخالف سخت بیانیے کے باوجود جنگ کے حق میں نہیں ہے۔

نیم سرکاری خبررساں ادارے 'النا' کے مطابق ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 59 کسی بھی معاملے پر جمود ختم کرنے کے لیے ریفرنڈم کی اجازت دیتا ہے۔

حسن روحانی کا کہنا تھا کہ انہوں نے جوہری پروگرام سے متعلق 2004 میں ہونے والے مذاکرات کے دوران بھی رہبر اعلٰی آیت اللہ خامنہ ای کو ریفرنڈم کی تجویز دی تھی۔

امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کا آغاز گزشتہ سال اس وقت ہوا تھا جب ٹرمپ حکومت نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں بشمول امریکہ کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا۔

اس سمجھوتے سے الگ ہونے کے بعد واشنگٹن نے رواں ماہ ایران کی تیل کی برآمدات پر تعزیرات دوبارہ عائد کر دی تھیں۔ پابندیوں کے نفاذ کے فوری بعد امریکہ کی جانب سے مشرقِ وسطیٰ میں اپنا طیارہ بردار جہاز اور بمبار طیارے تعینات کرنے کے اعلان کے بعد خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو گیا ہے۔

اگرچہ واشنگٹن کا مؤقف ہے کہ اس نے یہ قدم خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اٹھایا ہے، تاہم تہران اس موقف کو مسترد کر چکا ہے۔