ایران کا جنگی بحری جہاز مرمت کے دوران ڈوب گیا

جنگی بحری جہاز مرمت کے دوران ٹینک میں پانی بھرنے کے سبب ڈوبا۔

  • ایران کی بحریہ کا جنگی جہاز 'سہند' آبنائے ہرمز میں گھاٹ پر مرمت کے دوران ڈوب گیا۔
  • رپورٹس کے مطابق مرمت کے دوران جہاز کے ٹینک میں پانی بھر گیا جس سے اس کا توازن برقرار نہیں رہا۔
  • حادثے میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
  • جنگی جہاز کی تیاری میں لگ بھگ چھ سال لگے تھے اور اسے دسمبر 2018 میں خلیج فارس میں اتارا گیا تھا۔

ایران کی بحریہ کا جنگی جہاز آبنائے ہرمز میں مرمت کے دوران ڈوب گیا۔

خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق بحری جہاز کے اتوار کو غرقِ آب ہونے کی تصدیق سرکاری میڈیا نے بھی کر دی ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے 'ارنا' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بحری جہاز ’سہند‘ ساحل کے قریب گھاٹ پر مرمت کے لیے موجود تھا۔ اس دوران اس کے ٹینک میں پانی بھرنا شروع ہوا جس سے جہاز کا توازن برقرار نہیں رہا۔

رپورٹس کے مطابق جہاز گھاٹ پر جس مقام پر موجود ہے وہاں سمندر کی گہرائی انتہائی کم ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ جہاز کو دوبارہ توازن کی حالت میں لایا جائے۔

تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ جہاز کو توازن میں لانے یا سیدھا کرنے میں کتنا وقت لگے گا اور اس قابلِ استعمال ہونے کے کتنے امکانات ہیں۔

’ارنا‘ کی رپورٹ کے مطابق جہاز کو پیش آنے والے حادثے میں کئی افراد زخمی ہوئے ہیں جنہیں طبی امداد کے لیے مختلف اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ زخمیوں کے حوالے سے مزید کسی بھی قسم کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔

سہند ایران کے شمال میں ایک پہاڑ کا بھی نام ہے جس کے نام پر یہ بحری جنگی جہاز بنایا گیا تھا۔

جنگی جہاز کی تیاری میں لگ بھگ چھ سال لگے تھے اور اسے دسمبر 2018 میں خلیج فارس میں اتارا گیا تھا۔

سہند کا وزن لگ بھگ 1300 ٹن ہے جس سے سمندر کی سطح اور فضا میں میزائلوں سے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔

اس میں اینٹی ایئر کرافٹ بیٹریاں بھی نصب ہیں جب کہ یہ جدید ترین ریڈار سسٹم سے لیس ہے۔

جہاز میں دشمن کے ریڈار میں مخفی رہنے کی جدید ٹیکنالوجی بھی لگائی گئی ہے۔

ایران کے حالیہ برسوں میں جنگی بحری جہازوں کو حادثات اور ان کے ڈوبنے کے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

جنوری 2018 میں بحیرہ کیسپین میں بریک واٹر (سمندری لہروں کو روکنے والی دیوار) سے ایران کی بحریہ کا جنگی جہاز ’دماوند‘ ٹکرا کر ڈوب گیا تھا۔ یہ جہاز 2015 میں بحریہ میں شامل کیا گیا تھا۔

(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)