ایران میں جمعے کو صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ ان انتخابات سے ایک طرف کچھ لوگ امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو کسی بھی امیدوار پر بھروسا کرنے پر تیار نہیں۔ واضح رہے کہ یہ انتخابات ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں، جب ایران کو معاشی پابندیوں، عالمی تنہائی اور کرونا وائرس کے سبب مشکلات کا سامنا ہے۔
ان انتخابات میں ابراہیم رئیسی پر اکثریت کی نظریں کیوں جمی ہیں؟ نئے ایرانی صدر کے سامنے کیا بڑے چیلنجز ہوں گے؟ ان انتخابات کا خطے کے ممالک اور مغربی دنیا کے ساتھ ایران کے تعلقات پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟ اس بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس اور وائس آف امریکہ کی رپورٹوں کو زیل میں یکجا کیا جا رہا ہے۔
الیکشن یا سیلیکشن؟
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مشرق وسطیٰ کے امور کے ایڈیٹر، کے مطابق، ایران کے انتخابات، ایک ایسے سخت گیر امیدوار کی ’دستار بندی‘ کرتے نظر آ رہے ہیں جنہیں سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے ایک مدت سے تیار کر رکھا ہے۔ تاہم اب بھی یہ انتخابات مشرق وسطیٰ کے خطے کے لیے اہم اثرات کے حامل ہیں، جو ایران اور مغرب کے درمیان برسوں سے چلی آنے والی کشیدگی کے سبب پہلے ہی متاثر ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
سپریم کمانڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایران کے فوجی اور جوہری معاملات پر حتمی اختیار حاصل ہے ، جبکہ صدر کا دفتر معیشت جیسے اندرونی معاملات پر کنٹرول رکھتا ہے ۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے ڈائریکٹر فار گلف اینڈ ایران جان گیمبریل کی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق، موجودہ صدر حسن روحانی کے دور میں، جنہیں ایک اعتدال پسند رہنما خیال کیا جاتا ہے اور ان کے پیش رو سخت گیر صدر احمدی نژاد کے دور میں واضح فرق دیکھا جاتا ہے جس کی ایک بڑی مثال ان کی انتظامیہ کا دنیا کی طاقتوں کے ساتھ سال 2015 میں ایک جوہری معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہونا تھا۔
ابراہیم رئیسی کا پس منظر؟
تجزیہ کاروں اور رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق، جمعے کو ہونے والے انتخابات میں سابق جیوڈیشری چیف ابراہیم رئیسی واضح طور پر صدارتی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ اگر ابراہیم رئیسی صدارتی عہدہ سنبھالتے ہیں تو ان کی انتظامیہ کی حکمت عملی کیا ہو گی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔
سال 2019 میں امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابراہیم رئیسی پر اس وجہ سے پابندی عائد کر دی تھی کہ ان کی انتظامی نگرانی میں ایسے افراد کو بھی پھانسی دے دی گئی تھی جو جرم کے ارتکاب کے وقت کم عمر تھے۔ اسی طرح اس وقت ایران میں قیدیوں کے ساتھ ایذا رسانی اور دیگر سخت سزاؤں کا بھی چلن عام تھا۔
جیوڈیشری کے سربراہ کی حیثیت سے رئیسی ایسے نظام کے نگران ہیں جس پر قیدیوں اور سرگرم کارکنوں کے خاندان طویل عرصے سے تنقید کرتے آ رہے ہیں کہ وہ دوہری شہریت والوں کو اور ان افراد کو ہدف بناتا ہے جن کا مغرب کے ساتھ تعلق ہو اور وہ ان کو مذاکرات میں اپنی شرائط منوانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے بھی ابھی تک رئیسی کو پابندیوں والی فہرست سے نکالنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ اور محکمہ خزانہ نے اس بارے میں سوالوں کے جواب دینے سے انکار کیا ہے کہ رئیسی پر پابندیاں، ان کے ایران کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں، کس طرح امریکہ کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوں گی۔
ابراہیم رئیسی نے جنوری میں، پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کی برسی کے موقع پر ڈونلڈ ٹرمپ کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی اور یہ چیز شاید رئیسی کے لیے مددگار نہ ہو۔
حالیہ مباحثوں میں رئیسی نے یہ کہا ہے کہ وہ صدر حسن روحانی کی طرف سے عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کی طرف لوٹنے پر غور کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کی اس معاہدے سے یک طرفہ علیحدگی کے بعد ایران یورینیم کی ریکارڈ 63 فیصد افزودگی کرتا رہا ہے۔ تاہم یہ شرح بھی جوہری ہتھیار بنانے کے لیے مطلوب 90 فیصد سےکم ہے۔
رئیسی نے خارجہ پالیسی سے متعلق زیادہ اشارے نہیں دیے ہیں، البتہ انہوں نے لبنان کے عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کی ماضی میں تعریف کی ہے اور اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی پر تنقید کی ہے اور اسے فلسطینیوں کو نقصان پہنچانے سے تعبیر کیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور ایران نے اپریل میں بغداد میں مذاکرات کیے تھے اور ریاض کو امید ہے کہ اس سے وہ ایران کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کر سکتا ہے جیسا کہ 2019 میں ایک مشتبہ ایرانی حملے میں اس کی تیل کی صنعت کو ہدف بنائے جانے کے بعد محسوس کیا جا رہا تھا۔
اسی طرح ابوظہبی اور دبئی نے بھی ایران کے ساتھ اس وقت مذاکرات کیے تھے جب ان کے ساحلوں کے قریب ٹینکروں پر حملے ہوئے۔ ایک بار پھر ایران پر شک کیا گیا تھا کہ وہ ان حملوں کا ذمہ دار ہے۔ یہ حملے اور ایران اسرائیل کے درمیان سرد جنگ کو تہران کے ساتھ عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے سے ٹرمپ کی علیحدگی سے جوڑا جا سکتا ہے۔
ان سب حوالوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تہران کے ساتھ مصالحت فوری طور پر کارڈز کا حصہ ہے۔ لیکن یہ اس جانب اشارہ ضرور ہے کہ رئیسی کے لیے سہل وقت ہے کہ وہ دیگر ممالک بالخصوص متحدہ عرب امارات کے ساتھ تعلقات پر غور و خوض کر سکیں۔ ایران کے لیے متحدہ عرب امارات ایک اہم اقتصادی مرکز ہے۔
تاہم رئیسی کے لیے فوری خطرات کہیں اور سے نہیں بلکہ ملک کے اندر سے زیادہ ہیں۔ روز بہ روز گرتی ہوئی معیشت پر ملک کے اندر غم و غصہ پایا جاتا ہے اور حالیہ برسوں میں دو مرتبہ ملک گیر مظاہرے ہوئے ہیں۔
ریاست سے منسلک ایران کی سٹوڈنٹ پولنگ ایجنسی جسے ایک عرصے سے کٹر مذہبی نظریات کے لیے حمایت کی اہم علامت سمجھا جاتا ہے، وہاں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد حمایت اپنی کم ترین سطح پر ہے․
ایران کے انتخابات عوام کو مزید کمزور کر دیں گے، شہریوں کے خدشات
ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک اور رپورٹ کے مطابق ایسے میں جب کہ ایران کے عوام ووٹ دینے یا انتخابات کے بائیکاٹ کی تیاری کر رہے ہیں، انہیں خدشہ ہے کہ صدارتی انتخاب ملک کی قسمت بنانے میں ان کی ناتوانی یا کم طاقتی کو اجاگر کر سکتے ہیں۔
SEE ALSO: ایران کے صدارتی انتخابات میں کون کون امیدوار ہے؟ایران کے مذہبی علماء پر مشتمل ،کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کرنے والی کمیٹی نے صرف سات امیدواروں کو مقابلے میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے۔
یہ انتخابات ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب ایران کو عالمی وبا کرونا وائرس کے سبب مشکلات، عالمی سطح پر تنہائی اور امریکہ کی سخت پابندیوں کا سامنا ہے۔
انتخابات کے بارے میں ایران کے عوام کی رائے
ایسوسی ایٹڈ پریس نے تہران کے کچھ رہائشیوں سے انتخابات کے بارے میں ان کی رائے لی اور یہ جاننا چاہا ہے کہ ان کی امیدیں کیا ہیں اور خدشات کیا ہیں؟
کچھ لوگوں کو امید ہے کہ ان انتخابات سے ملک کے اندر بحران کی کیفیت میں کمی آئے گی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ صدر حسن روحانی کی ناکامیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ابراہیم رئیسی کو ووٹ دیں گے جو ٹیلی وژن پر کرپشن کے خلاف مہم چلانے کی سبب مشہور ہیں۔
کئی شہری ایسے ہیں جنہوں نے ابھی کسی کو ووٹ دینے یا الیکشن کے بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ حکومت پر اعتبار نہیں کرتے کہ وہ ان کی زندگیوں میں بہتری لا سکتی ہے۔
تہران کے ایک مصروف بازار میں بچوں کے کپڑوں کی بلند قیمتوں پر حیران 30 سالہ معصومہ افتخاری کہتی ہیں کہ ’یہ چیز مجھے مایوس کرتی ہے اور میں نہیں کہہ سکتی کہ کون سا امیدوار میرا پسندیدہ ہے۔ اس وقت تو کوئی نہیں ہے۔‘
مستقبل میں معاشی تنزلی کے خوف میں مبتلا 29 سالہ فاطمہ ریکابی پیشے کے لحاظ سے اکاؤنٹنٹ ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ایسا کوئی امیدوار نہیں جو ووٹ حاصل کرنے کے قابل ہو۔
’’ مجھے امیدواروں پر بھروسہ نہیں ہے۔ کیونکہ مجھے نہیں پتا کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔ کیا ہو گا اگر صورت حال مزید بگڑ گئی تو؟ ہمارے لوگ بچ نہیں پائیں گے۔‘‘
وہ لوگ جو ابراہیم رئیسی کے ساتھ امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں وہ اپنی قسمتوں میں تبدیلی کے لیے بے تاب ہیں۔
37 سالہ علی مومنی کا کہنا ہے کہ ’ روحانی کا دور مایوسی اور نااہلی کا دور تھا۔ میرا تعلق فنانس سے ہے اور ہم نے ہر روز اپنے شہریوں کے لیے مشکلات دیکھی ہیں‘‘۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنا ووٹ رئیسی کو دیں گے جو ان کے خیال میں ایک طاقتور معاشی مشیروں کی ٹیم لے کر آئیں گے اور ملک کی حالت بہتر بنائیں گے۔
ایک بازار میں مال برداری کا کام کرنے والا 50 سالہ لقمان کریمی بھی رئیسی کے حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ رئیسی کو ان کے وعدوں کی وجہ سے نہیں بلکہ جیوڈیشری کے چیف کی حیثیت سے جامع اقدامات کرنے پر ووٹ دے رہے ہیں۔
ایران کے نئے صدر کے لیے پانچ مشکلات کیا ہوں گی؟
وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق ایران کے نئے صدر کو جن پانچ بڑی مشکلات کا سامنا ہے، ان میں معیشت کی بحالی، بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری، کرونا وائرس کے اثرات سے باہر نکلنا، لوگوں کے اعتماد کا حصول اور ماحولیاتی مسائل سے نمٹنا شامل ہیں۔
معیشت کی بحالی
تمام امیدوار اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ان کی ترجیح معیشت کی بحالی ہے۔ ایران کی معیشت کو امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے تہران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر واشنگٹن کے الگ ہونے سے سخت نقصان پہنچا تھا۔ اور اس کے بعد رہی سہی کسر کووڈ نائنٹین نے پوری کر دی۔
امریکہ نے ٹرمپ انتظامیہ کے تحت نہ صرف نئی پابندیاں عائد کیں بلکہ ایران کا تیل کی تجارت کی مد میں اربوں ڈالر کا نقصان ہوا اور اس کی خطیر رقم انٹرنیشنل فنانشل سسٹم میں منجمد ہو گئی۔
آئی ایم ایف کے مطابق تہران کی قومی نمو کی شرح میں سال 2018 اور 2019 میں چھ فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ملکی کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی بڑھی ہے۔ آئی ایم ایف اس سال کے لیے 39 فیصد مہنگائی کی توقع ظاہر کر رہا ہے۔
بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری
اگر تہران کے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہے، تو غالباً اس سے مغربی سرمایہ کار فوری طور پر ایرانی مارکیٹ کا رخ نہیں کریں گے۔ یہ کہنا ہے کہ فلورنس اٹلی کے یورپی یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ کلیمینٹ تھرمے کا۔ ان کے بقول ایسا ہونے کے لیے تہران اور واشنگٹن کے درمیان سفارتی تعلقات کا معمول پر آنا ناگزیر حد تک ضروری ہے۔
تھرمے کے بقول نئے ایرانی صدر کو اپنے لوگوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ مخاصمت کو بہت کم سطح پر لانا ہو گا۔
اس وقت دوڑ میں آگے کی صف میں شامل ابراہیم رئیسی ایران کے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری چاہتے ہیں۔ چین کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے نزدیک اگر رئیسی صدر منتخب ہوتے ہیں تو ایران کے مغرب کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی برقرار رہے گی لیکن سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش جاری رہے گی۔
کرونا کے اثرات سے نکلنا
کرونا وائرس کے خطے میں نمودار ہونے کے بعد ایران اس سے بری طرح متاثر ہونے والا ملک تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، 30 لاکھ کے قریب لوگ اس وائرس سے متاثر ہوئے اور ان میں سے 8 ہزار ایک سو افرد ہلاک ہو گئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس بارے میں اعداد و شمار کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔
ایران کو امریکی پابندیوں کی وجہ سے اپنے لوگوں کو ویکسین لگانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ اور ابھی تک وہ لوگوں کو ویکسین دینے میں بہت پیچھے ہے۔
پابندیوں میں نرمی اور ایران کی بنائی ہوئی ویکسین کے مارکیٹ میں آنے سے یہ مشکل کم ہو سکتی ہے۔
لوگوں کے اعتماد کا حصول
ایران پر معاشی مشکلات اور سال 2017 اور 2018 کے موسم سرما اور نومبر 2019 میں ہلاکت خیز مظاہروں کی چھاپ ابھی واضح ہے۔
ایران کے لوگوں کو جنوری 2020 میں ایرانی فوج کی طرف سے یوکرین کا طیارہ گرانے پر اس لیےبھی مایوسی ہوئی ہے کہ اس وقت امریکہ کے ساتھ کشیدگی عروج پر تھی۔
ایک اصلاح پسند صحافی احمد زیدآبادی کے مطابق اعتماد کا بحران گہرا اور وسیع ہے۔
حکام کو خدشہ ہے کہ جمعہ کے روز ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح بھی کم رہے گی۔ 2020 کے لیجسلیٹو الیکشن میں 57 فیصد افراد نے ووٹ نہیں ڈالے تھے۔
ماحولیاتی مسائل
ماحولیاتی مسائل ایران کی ایسی ترجیح ہو سکتے ہیں جس پر اس کی توجہ پہلے کبھی نہیں رہی۔ کیونکہ 8 کروڑ 30 لاکھ آبادی کے اس ملک کو ماحولیاتی تغیر کے سبب بڑھتے ہوئے مسائل کا سامنا ہے۔ جبکہ پانی کی کمی اور فضائی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔