مذاکرات میں’لچک، فہم و فراست اور عزم‘ ضروری: اقوام متحدہ

پیرس

کیری نے کہا ہے کہ ’اہل کار سمجھوتے پر پہنچنے کے خواہاں ہیں، لیکن یہ برائے نام سمجھوتا نہیں ہونا چاہیئے‘۔۔۔۔ محکمہٴخارجہ کے مطابق، امریکہ پیر کی ’ڈیڈلائن‘ پر ذہن مرکوز رکھے ہوئے ہے، اور یہ کہ اس میں مزید توسیع پر کوئی بات نہیں ہو رہی

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا ہے کہ عالمی طاقتیں ایران کے جوہری پروگرام پر سمجھوتے کی تلاش میں ’متحد‘ ہیں، ایسے میں جب ایران کے جوہری پروگرام پر مربوط معاہدے پر فیصلے کی حتمی تاریخ سر پر ہے۔

تاہم، کیری کا کہنا تھا کہ ’اہل کار سمجھوتے پر پہنچنا چاہتے ہیں، لیکن یہ برائے نام سمجھوتا نہیں ہونا چاہیئے‘۔

اُنھوں نے یہ بات جمعرات کے روز فرانس اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے ساتھ پیرس میں ہونے والی ملاقات کے دوران اپنے کلمات میں کہی۔ ملاقات کا مقصد ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے جاری مذاکرات کو زیرِ بحث لانا تھا۔

بعدازاں، جمعرات ہی کے روز، کیری ویانا جائیں گے، جہاں وہ ایران کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، چین، فرانس، روس اور جرمنی پر مشتمل گروپ کے درمیان ہونے والے اعلیٰ سطحی مذاکرات میں شریک ہوں گے۔

یہ ڈیڈلائن پیر کو ختم ہو رہی ہے، جس سے پہلے وہ ایک سمجھوتا طے کرنا چاہتے ہیں، جس کے لیے سال بھر سے کوششیں جاری ہیں۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل، بان کی مون نے اِن مذاکرات کو کامیابی سے ہم کنار کرنے کے لیے،تمام فریق کی طرف سے ’لچک، عقل و دانش اور عزم‘ کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا۔

اُنھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ دوطرفہ طور پر قابلِ قبول اور مربوط سمجھوتا طے ہونے سے ایران کے جوہری پروگرام کی پُرامن نوعیت سے متعلق اعتماد بحال ہونے کا باعث بنے گا۔


دریں اثنا، جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے (آئی اے اِی اے) نے کہا ہے کہ ایران اپنے مشتبہ نیوکلیئر ہتھیاروں کی تحقیق کے بارے میں قابل اعتماد وضاحتیں فراہم نہیں کر رہا ہے۔ ویانا میں ادارے کے بورڈ آف گورنرز سے خطاب کرتے ہوئے، یکئا امانو نے ایران پر زور دیا کہ وہ ادارے کو تمام متعلقہ دستاویزات، تنصیبات، مواد اور اہل کاروں تک بروقت رسائی فراہم کرے۔

ایران اس بات پر اڑا ہوا ہے کہ اُس کا جوہری تحقیق کا پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

بات چیت کے سارے عمل کے دوران، دونوں اطراف سے تعلق رکھنے والے فریق نے مختلف سطح کی امیدیں اور غیر یقینی کے خیالات کا اظہار کیا ہے، آیا وہ کوئی سمجھوتا طے کر پائیں گے، جس میں یہ یقین دہانی کرائے جاسکے کہ ایران کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، جب کہ ایران کو اُن بین الاقوامی تعزیرات سے رہائی میسر آسکے جن کے نفاذ کے نتیجے میں اُس کی معیشت پر بھاری ضرب پڑ رہی ہے۔

اصل میں، اِن مذاکرات کو جولائی کے آخر تک مکمل ہو جانا چاہیئے تھا، لیکن کسی سمجھوتے پر نہ پہنچنے کے باعث، دونوں فریق نے ایک دوسرے کو مزید چھ ماہ کا وقت دینے کا فیصلہ کیا۔

امریکی محکمہٴ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ پیر کی ’ڈیڈلائن‘ پر ذہن مرکوز رکھے ہوئے ہے، اور یہ کہ اس میں مزید توسیع کے بارے میں کوئی بات نہیں ہو رہی۔