تجویز دنیا کی چھ بڑی طاقتوں اور تہران کے مصالحت کاروں کے درمیان جنیوا میں جاری مذاکرات میں پیش کی گئی۔
ایران نے اپنے جوہری پروگرام سے متعلق تنازع کو حل کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کو بعض تجاویز پیش کی ہیں۔
یہ تجویز دنیا کی چھ بڑی طاقتوں اور تہران کے مصالحت کاروں کے درمیان جنیوا میں جاری مذاکرات میں پیش کی گئی۔ نئے ایرانی صدر کے حالیہ انتخاب کے بعد اپنی نوعیت کی یہ پہلی بات چیت ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ اُمور سے متعلق ترجمان مائیکل مین نے منگل کو بتایا کہ مذاکرات ابھی جاری ہیں اور وہ اس وقت ایران کی تجویز کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کر سکتے۔
تاہم اُنھوں نے کہا کہ ایرانی وزیرِ خارجہ نے تقریباً ایک گھنٹے تک تہران کے منصوبے کے خد و خال واضح کیے۔
جنیوا میں ہونے والی دو روزہ بات چیت کے آغاز سے پہلے یورپی یونین کی خارجہ اُمور سے متعلق اعلیٰ ترین عہدیدار کیتھرین ایشٹن نے اس عمل کے بارے میں ’’محتاط رجائیت‘‘ کا اظہار کیا تھا۔
امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی چاہتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق ان کے تحفظات دور کرے، جب کہ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُر امن مقاصد کے لیے ہے اور وہ اس موقف کی بنیاد پر بین الاقوامی تعزیرات کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے تعزیرات میں نرمی کے لیے سفارتی کوششیں کرنے کا عزم کیا ہے، مگر مذکورہ بالا چھ ممالک پر مبنی پی فائیو پلس ون نامی گروپ کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ اُس وقت ہی ممکن ہے جب ایران اس بارے میں اپنا خلوص ثابت کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کی سلامتی سے متعلق کابینہ نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو متنبہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ کوئی جزوی سمجھوتا نا کیا جائے۔
اس کا کہنا ہے کہ ان ممالک کو ایسا کوئی بھی معاہدہ مسترد کر دینا چاہیئے ’’جس کے تحت ایران کے پاس جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت موجود رہے‘‘۔
ادھر واشنگٹن میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن سینیٹروں کے مشترکہ گروہ نے کہا ہے کہ وہ ایران پر نئی تعزیرات کے نفاذ کو موخر کرنے کی حمایت کر سکتا ہے بشرطیکہ تہران اپنے جوہری پرواگرام کی رفتار کم کرنے کے لیے قابل ذکر اقدامات کرے۔
یہ تجویز دنیا کی چھ بڑی طاقتوں اور تہران کے مصالحت کاروں کے درمیان جنیوا میں جاری مذاکرات میں پیش کی گئی۔ نئے ایرانی صدر کے حالیہ انتخاب کے بعد اپنی نوعیت کی یہ پہلی بات چیت ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ اُمور سے متعلق ترجمان مائیکل مین نے منگل کو بتایا کہ مذاکرات ابھی جاری ہیں اور وہ اس وقت ایران کی تجویز کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کر سکتے۔
تاہم اُنھوں نے کہا کہ ایرانی وزیرِ خارجہ نے تقریباً ایک گھنٹے تک تہران کے منصوبے کے خد و خال واضح کیے۔
جنیوا میں ہونے والی دو روزہ بات چیت کے آغاز سے پہلے یورپی یونین کی خارجہ اُمور سے متعلق اعلیٰ ترین عہدیدار کیتھرین ایشٹن نے اس عمل کے بارے میں ’’محتاط رجائیت‘‘ کا اظہار کیا تھا۔
امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ اور جرمنی چاہتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق ان کے تحفظات دور کرے، جب کہ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُر امن مقاصد کے لیے ہے اور وہ اس موقف کی بنیاد پر بین الاقوامی تعزیرات کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے تعزیرات میں نرمی کے لیے سفارتی کوششیں کرنے کا عزم کیا ہے، مگر مذکورہ بالا چھ ممالک پر مبنی پی فائیو پلس ون نامی گروپ کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ اُس وقت ہی ممکن ہے جب ایران اس بارے میں اپنا خلوص ثابت کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم بنجمن نیتن یاہو کی سلامتی سے متعلق کابینہ نے دنیا کی بڑی طاقتوں کو متنبہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ کوئی جزوی سمجھوتا نا کیا جائے۔
اس کا کہنا ہے کہ ان ممالک کو ایسا کوئی بھی معاہدہ مسترد کر دینا چاہیئے ’’جس کے تحت ایران کے پاس جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت موجود رہے‘‘۔
ادھر واشنگٹن میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن سینیٹروں کے مشترکہ گروہ نے کہا ہے کہ وہ ایران پر نئی تعزیرات کے نفاذ کو موخر کرنے کی حمایت کر سکتا ہے بشرطیکہ تہران اپنے جوہری پرواگرام کی رفتار کم کرنے کے لیے قابل ذکر اقدامات کرے۔