جوہری پروگرام پر مذاکرات اور ایران کے دیگر مقاصد

ایک حالیہ رپورٹ میں، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے کہا کہ ایران نے ایک مقام پر یورینیم افژودہ کرنے کے، جدید آلات نصب کرنے شروع کر دیے ہیں ۔
امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایران اپنے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں بین الاقوامی مباحثے کے ذریعے سیاسی اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے اسکالر ایلکس وٹانکا کہتے ہیں کہ ایران کو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کو یہ بتانے کے لیے کہ وہ کس قسم کی یقین دہانیاں چاہتا ہے، پہلے ہی بہت سے مواقع مل چکے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے انگریزی پروگرام اینکاؤنٹر میں انھوں نے کہا کہ ایران کو اپنی یورینیم افژودہ کرنے کی کوششوں کی مکمل وضاحت کرنے میں جو پس و پیش ہے، اس کی وجوہات مکمل طور پر سیاسی ہیں۔ تہران چاہتا ہے کہ اپنے نیوکلیئر پروگرام کو مغربی طاقتوں سے رعایتیں حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے ۔

’’آپ کو اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیئے کہ ایران ایسا کیوں کر رہا ہے اور اتنی بڑی قیمت کیوں ادا کر رہا ہے، آخر کس لیے؟ یہ سب اس لیے نہیں ہے کہ ایران کو بجلی پیدا کرنے کے لیے نیوکلیئر انرجی چاہیئے ۔ یہ سب سیاسی کھیل ہے ۔‘‘

Emanuele Ottolenghi فاؤنڈیشن فار دی ڈیفنس آف ڈیموکریسیز میں سینیئر فیلو ہیں۔ انھوں نے وائس آف امریکہ کے انگریزی پروگرام اینکاؤنٹر میں کہا کہ اس بات کی واضح علامتیں موجود ہیں کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام کا ایک سیاسی پہلو ہے۔

’’ایران کی حکومت نے کہا ہے کہ وہ ایک پُر امن انرجی پروگرام پر کام کر رہی ہے تا کہ بجلی پیدا کر سکے۔ یہ کام 30 برس سے جاری ہے، اور آج تک اس نے اپنے عوام کے لیے ایک واٹ بجلی بھی پیدا نہیں کی ہے۔‘‘

ایک حالیہ رپورٹ میں، انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی نے کہا کہ ایران نے ایک مقام پر یورینیم افژودہ کرنے کے، جدید آلات نصب کرنے شروع کر دیے ہیں۔ اگر ان آلات کو کامیابی سے چلایا گیا، تو اس سے یورینیم کی افژودگی کی رفتار اتنی تیز ہو سکتی ہے کہ مغربی طاقتوں کو ڈر ہے کہ اسے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ویٹانکا کہتے ہیں کہ اگرچہ ایران کے لیڈروں نے مغربی ملکوں کے ساتھ اپنے اختلافات کو ختم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا ہے، لیکن اس کے بہت سے شہریوں کا خیال اس سے مختلف ہے۔

’’میرے خیال میں تہران میں بہت سے لوگ ہیں جن کی دلیل یہ ہے کہ اس معاملے کا تعلق صرف نیوکلیئر پروگرام سے نہیں ہے ۔ ہمارے مفادات اس کے علاوہ کچھ اور بھی ہیں جن میں ہم امریکہ کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔ ا ن لوگوں کی آوازیں سنی جائیں گی یا نہیں، یہ بالکل مختلف بات ہے۔‘‘

ایران مسلسل یہی کہتا رہا ہے کہ اس کے نیوکلیئر عزائم پُر امن ہیں۔ لیکن Ottolenghi کہتے ہیں کہ برسوں سے ایران اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی، یعنی P5+1 کے ملکوں کے ساتھ مذاکرات میں ، اس بات کا جوا ب دینے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کے نیوکلیئر پروگرام کا کوئی فوجی پہلو بھی ہے یا نہیں۔

’’ایک طویل عرصے سے ایران مذاکرات کو وقت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔ شاید اس کی کوشش یہ بھی رہی ہے کہ P5+1 کے ملکوں کے درمیان اختلافات پیدا کیے جائیں۔ ظاہر ہے کہ روس اور چین ایک طرف ہیں، امریکہ اور یورپی ممالک دوسری طرف ہیں۔‘‘

پیر کے روز لندن میں بات چیت کے دوران، امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری نے کہا کہ ایران کے پاس نیت نیتی سے مذاکرات کے لیے وقت بہت محدود ہے ۔’’ہم نے بار بار یہ بات واضح کی ہے کہ سفارتی حل کا دروازہ ہمیشہ کے لیے کھلا نہیں رہ سکتا۔‘‘

کیری نے کہا کہ عالمی طاقتیں نیت نیتی کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ایران صحیح فیصلہ کرے گا۔