ایران جوہری سمجھوتا، اوباما کو 34 سینیٹروں کی حمایت حاصل

فائل

سینیٹر مکلسکی کے بقول، ’کوئی بھی سمجھوتا کُلی طور پر مثالی نہیں ہوا کرتا، خاص طور پر ایسا سمجھوتا جو حکومتِ ایران کے ساتھ طے کیا جائے‘

ایک امریکی سینیٹر کی جانب سے بدھ کے روز کیے جانے والے اِس اعلان کہ بعد کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام کو ترک کرنے سے متعلق بین الاقوامی برادری کے طے کردہ سمجھوتے کی حمایت میں ووٹ دیں گی، صدر براک اوباما کی خارجہ پالیسی ایک اہم فتح سے ہمکنار ہوگئی ہے۔

اس ضمن میں اب سینیٹ میں میری لینڈ سے ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والی سینیٹر، باربرا مکلسکی34ویں رُکن ہیں جنھوں نے اِس سمجھوتے کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔۔ اب مسٹر اوباما کے پاس درکار ووٹ دستیاب ہوگئے ہیں، اور یوں، کانگریس میں نیوکلیئر سمجھوتے کی حمایت میں انتظامیہ کی پوزیشن مستحکم ہوگئی ہے۔

سینیٹر مکلسکی کے بقول، ’کوئی بھی سمجھوتا کُلی طور پر مثالی نہیں ہوا کرتا، خاص طور پر ایسا سمجھوتا جو حکومتِ ایران کے ساتھ طے کیا جائے‘۔

تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے ایرانی سمجھوتے کی حامی بھری ہے۔۔ جسے باضابطہ طور پر مشترکہ مربوط ’پلان آف ایکشن‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔۔۔ جسے ایران کی جوہری بم تشکیل دینے کی راہ ترک کرنے کے حوالے سے دستیاب بہترین آپشن قرار دیا جاسکتا ہے‘۔

امریکی وزیرخارجہ جان کیری، جو اِس وقت فلاڈیلفیا میں ایران کے جوہری سمجھوتے کی حمایت میں خطاب کر رہے ہیں، وہ کانگریس میں مجوزہ مشترکہ قرارداد کے حق میں ٹھوس حمایت کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔

ممکن ہے کہ امریکی سینیٹروں کی اکثریت ایران کے ساتھ سمجھوتے کو ’نامنظور‘ کرے، لیکن مسٹر اوباما کہہ چکے ہیں کہ وہ ویٹو کے اختیار کا استعمال کرکے اِیسی تحریک کو مسترد کردیں گے۔ سینیٹ میں صدر کے حق میں 34 ووٹ حاصل ہوجانے کے بعد، اب وہ اس قابل ہیں کہ اُن کے ویٹو کو رد کرنے کی کوششیں ناکام ہوجائیں گی۔
ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس بھی صدارتی ویٹو کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ووٹ میسر ہوں گے۔ ایسی صورت حال میں کانگریس کے پاس کوئی راہ نہیں ہوگی کہ وہ ایران کے ساتھ سمجھوتے پر عمل درآمد کا راستہ روک سکیں۔

سمجھوتے پر امریکہ، ایران اور پانچ دیگر عالمی طاقتوں نے جولائی میں دستخط کیے تھے، جس کی مدد سے ایران کی جوہری سرگرمیوں پر روک ڈال دی گئی ہے، جس کے عوض ایران کی معیشت پر عائد تعزیرات کو نرم کیا جائے گا۔