ڈیڈلائن سے پہلے سمجھوتا مشکل، لیکن ناممکن نہیں: امریکہ

فائل

’اب یہ ایران پر منحصر ہے کہ وہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو قائل کرے، کہ اُس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے ہے‘

امریکی صدر براک اوباما کی طرف سے نامزد کردہ معاون وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ پیر کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ طے کرنے کی ڈیڈلائن سے پہلے ’سمجھوتا مشکل ضرور ہے، لیکن نا ممکن نہیں‘۔

نامزدگی کے معاملے پر بدھ کے روز کانگریس کی سماعت کے دوران، قومی سلامتی سے متعلق معاون مشیر، ٹونی بلِنکن نے بتایا کہ ’اب یہ ایران پر منحصر ہے کہ وہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کو قائل کرے، کہ اُس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے ہے‘۔

بِلنکن نے کہاکہ ’ابھی ہم اُس مرحلے پر نہیں پہنچے‘۔

یورینئیم کی افزودگی کو ترک کرنے کے بدلے ایران کے ساتھ سمجھوتا طے کرنے کے معاملے پر ’پی فائیو پلس ون‘ (اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان اور جرمنی) کی مقرر کردہ ڈیڈلائن پیر کو ختم ہو رہی ہے۔ اس کے عوض، مغربی ممالک ایران پر عائد تعزیرات اٹھا لیں گے۔

بدھ کو ویانا میں سینئر سفارتکاروں کی ملاقات ہوئی، جب کہ لندن میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اومان کے وزیر خارجہ، یوسف بن علوی سے بات چیت کی۔

جمعرات کے روز، کیری پیرس جائیں گے؛ جہاں وہ فرانسیسی اور سعودی وزرائے خارجہ سے ملاقات کریں گے۔

امریکی محکمہٴخارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ کا دھیان 24 نومبر کی حتمی تاریخ پر مرتکز ہے، جس میں توسیع کے بارے میں کوئی بات نہیں ہو رہی۔

امریکہ نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے؛ جب کہ ایران اس بات پر مصر ہے کہ اُس کا جوہری پروگرام پُرامن سویلین مقاصد کے لیے ہے۔ اور، اُس کا کہنا ہے کہ یورینیئم کی افزودگی بجلی پیدا کرنے کے لیے درکار ہے۔